حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو غنی کا لقب کیوں دیا گیا

7  جنوری‬‮  2019

ایک دفعہ مدینہ منورہ میں قحط پڑگیا ۔ آسمان نے پانی برسانا چھوڑ دیاتھا اور زمین نے اناج اگانے سے انکار کردیاتھا ۔اس قحط کی وجہ سے پورے شہر میں غربت پھیل گئی تھی لوگ دانے دانے کے لئے محتاج ہو گئے تھے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ بہت بڑے تاجر تھے ۔ان کی تجارت پورے عرب میں پھیلی ہوئی تھی۔اس دوران ان کا ایک تجارتی قافلہ شام سے لوٹا۔ اس قافلے میں ایک ہزار اونٹ تھے ۔

کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ جب یہ قافلہ مدینہ کو پہنچاتو لوگوں کو تھوڑی راحت ہوئی ۔ بچے بوڑھے خوش ہوئے لیکن جیسے ہی یہ قافلہ مدینہ پہنچا تاجروں کا ایک وفد بھی ساتھ ساتھ یہاں پہنچ گیا ۔اس وفد نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا وہ اپنا مال فروخت کرنا چاہیں گے؟ ان کا ارادہ تھا کہ سارا مال خرید لیں اور قحط کی وجہ سے مجبور لوگوں کو مہنگے داموں فروخت کرکے بہت سارا نفع کمائیںحضرت عثمان رضی اللہ عنہنے ان سے پوچھا کہ آپ اس کی کیا قیمت لگاتے ہیں؟انھوں نے جواب دیا کہ ہم آپ کو دوگنا نفع دیں گے ۔ یعنی ایک دینار کا مال دو دینار میں خریدیں گے !حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اتنا نفع تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جواب سن کر انھوں نے نفع اور بڑھا دیا ۔ پھر بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وہی جواب دیا کہ اتنا تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے۔انھوں نے نفع اور بڑھا دیا لیکن اب بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہی کہا کہ اتنا تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے!یہ سن کر وہ تاجر حیران ہوئے ۔ انھوں نے پوچھا کہ عثمان رضی اللہ عنہ ہم اہل مدینہ کو خوبجانتے ہیں ،یہاں کوئی تاجر ایسا نہیں جو تمہارے مال کو ہم سے زیادہ قیمت میں خریدے۔ آخر وہ کون ہے

جو تمہیں ہم سے زیادہ نفع دے رہا ہے؟حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا — اللہ !جو نفع تم مجھے دے رہے ہو ،میرے رب نے مجھے اس سے بہت زیادہ نفع دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ کہہ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ تمام مال اہل مدینہ اور ضرورتمندوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے اس وقت قرآن کی یہ آیت تھی؛”جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں

ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے ،جیسے ایک دانہ بویا جائے، اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سودانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے،وہ فراخت دست بھی ہے اور علیم بھی“۔(البقرہ261)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تاجروں کا جو وفد آیا تھا وہ درحقیقت شیطان کا وفد تھا وہ آپ رضی اللہ عنہ کو آزمائش میں ڈالنے آیا تھا۔ وہ آپ کے سامنے اسی طرح آیا تھا جس طرح وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے آیا تھا

جبکہ وہ اپنے لاڈلے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کرنے جا رہے تھے۔ شیطان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے دنیوی فائدے کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا تھا تاکہ عثمان رضی اللہ عنہ آخرت کے دائمی فائدہ سے محروم ہوجائیں ۔ لیکن چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایمان زندہ تھا اس لئے انھوں نے دنیوی فائدے پر آخرت کے فائدے کو ترجیح دی۔ انھوں نے سمجھ لیا کہ ان کے سامنے شیطانی وفد ہے جو انھیں اخروی نفع سے ہمیشہ کے لئے محروم کرنا چاہتا ہے ۔ ایسی ہی سخاوت کی وجہ سے انہیں غنی کا لقب عطا ہوا

موضوعات:



کالم



میزبان اور مہمان


یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…