بڑا لکھاری کیسے بنا جائے؟ مشہور لکھاریوں کی عادات

15  اپریل‬‮  2015

کتنے ہی لوگ اپنی بہترین مہارتوں سے بے خبر انہیں ساتھ لے کر دفن ہو جاتے ہیں۔عام طور پرہم یہی خیال کرتے ہیں کہ عظیم کام صرف وہی لوگ سرانجام دے پاتے ہیں جنہیں پیدائشی طورپر ذہانت اورمہارت ودیعت ہوتی ہے۔لیکن انسانوں کی بہت بڑی تعداد اپنی حقیقی صلاحیت سے بے خبر بھیڑ کے ساتھ عمرگزار دیتی ہے۔ان صلاحیتوں کو کیسے پہچانا جا سکتا ہے؟یہ ہے اصل سوال۔اس کا سب سے بہتر طریقہ اپنے روزمرہ معمولات میں ترتیب وتنظیم لانا ہے۔یہ جاننے کے لئے کہ کون سی چیز کامیاب لوگوں کو دیگر سے جدا کرتی ہے ہمیں کامیاب لوگوں کے روزمرہ کے معمولات جاننا ہوں گے۔ماضی اور حال کے چند ایک معروف لکھاریوں کے معمولات کو جیمز کلیئر نے مرتب کیا ہے۔ ان معمولات سے آگاہی قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوگی۔

ای بی وائٹ:(E.B. White)
’’جو شخص لکھنے کے لئے مناسب حالات کا منتظر ہے وہ ایک لفظ بھی لکھے بغیر اس دنیا سے گزر جائے گا۔‘‘
کارلوٹیز ویب کے مصنف ای بی وائٹ کا دی پیرس ریویو کو اپنے ایک انٹرویو میں کہنا تھا:
’’میں لکھتے ہوئے کبھی موسیقی نہیں سنتا۔یہ مجھے بالکل پسند نہیں۔دوسری جانب میں معمول کی خلل اندازیوں کے باوجود اچھے طریقے سے اپنا کام کرتا ہوں۔میں ایک بولتے بستے گھر میں رہتا ہوں۔جہاں مختلف آوازیں ،ٹیلی فون پر رابطے،بھاری ٹریفک کا شور سب کچھ چلتا ہے۔
اس کے باوجود میرا کمرہ میرے لئے دلچسپ جگہ ہے۔میں اپنا کام جم کر کرتا ہوں۔اس دوران میرے گھر والے ، جو کام میں کر رہا ہوتا ہوں کی جانب ذرا بھی توجہ نہیں دیتے۔وہ مکمل آزادی سے بولتے،ہنستے اور قہقہے لگاتے ہیں۔
اگر مجھے ا ن چیزوں سے زیادہ الجھن محسوس ہو تو میں اپنی جگہ بدل لیتا ہوں۔اگر کوئی آدمی کام کے لئے بہتر اور موزوں حالات اور ماحول کا منتظر رہنے کا عادی ہے تو بہت ممکن ہے کہ وہ کاغد پر ایک لفظ بھی اتارے بغیر اس دنیا سے کوچ کر جائے۔‘‘
ارنیسٹ ہیمنگوے(Ernest Hemingway)
’’میں ہر صبح لکھتا ہوں۔‘‘
جارج پلمٹن کو انٹرویو دیتے ہوئے ہیمنگوے نے اپنے روزمرہ معمولات یو ں بیان کیے۔’’جب مجھے کسی کتاب یا کہانی پر کام کرنا ہوتا ہے تو میں صبح پوپھوٹتے ہی کام شروع کر دیتا ہوں۔ یہ ایسا وقت ہے جس میں کوئی بھی ا?پ کے کام میں خلل انداز نہیں ہوتا اور اس طرح بہت سہولت سے آپ اپنا کام کر لیتے ہیں۔ اپنالکھا ہوا دوبارہ پڑھئے۔یہ آپ کی تحریر میں نکھار لانے کا سبب بنے گا۔‘‘
ہروکی موراکامی:(Haruki Murakami)
’’تسلسل کے ساتھ ایک طرز کو جاری رکھنا بہت اہم ہے۔‘‘
ہروکی موراکامی اپنے ایک انٹر ویو میں اپنی عادات کا ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں
’’جب میں ناول پر کام کرنے کے لئے پرعزم ہوتا ہوں تو صبح چار بجے جاگ اٹھتا ہوں اور مسلسل پانچ سے چھ گھنٹے کام کرتا ہوں۔ دوپہر میں دس کلومیٹر دوڑ یا لگ بھگ پندرہ سو میٹر تیراکی کرتا ہوں یا پھردونوں۔ پھر میں تھوڑا سا مطالعہ کر نے کے بعد موسیقی کا لطف لیتا ہوں۔ اور رات نو بجے لازمی طور پر سو جاتا ہوں۔

میں ہر روز اسی طریقے پر عمل کرتا ہوں۔یہ معمولات میں اعادہ بہت اہم ہے۔یہ میسمیرزم کی ایک قسم ہے۔ میں اس طرح خود کو بہترین اور گہری دماغی سطح تک لے جانے کے لئے میسمرائزکرتا ہوں۔لیکن لمبے عرصے تک اس عادت کو برقرار رکھنے کے لئے اچھی ذہنی اور جسمانی صحت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ایک طویل ناول لکھنا ایک طرح سے بقا کی مشق ہے۔اس کے لئے فنکارانہ حساسیت کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت بہت اہم ہے۔‘‘
ہنری ملر:(Henry Miller)
’’جب آپ تخلیق نہ کر سکیں تو آپ کام کر سکتے ہیں۔‘‘
مشہور لکھاری اور مصور ہنری ملر نے 1932ء میں کام کرنے کا ایک لائحہ عمل ترتیب دیا تھاجس میں اس نے اپنی روزمرہ مصروفیات کی فہرست کا ذکر کیا تھا۔یہ فہرست بعد میں ایک کتاب’’ہنری ملر آن رائٹنگ‘‘ میں شائع کی گئی۔
1۔ایک وقت میں ایک ہی کام کریں یہاں تک کہ اسے مکمل کر لیں۔
2۔پہلی کی تکمیل سے قبل نئی کتابیں شروع نہ کریں۔
3۔نروس ہر گز نہ ہوں۔جو کام درپیش ہے اسے پورے اطمینان ،خوشی اور تسلسل سے جاری رکھیں۔
4۔موڈ کے تابع ہونے کی بجائے پروگرام کے مطابق کام کریں۔مقرر وقت پر کام روک دیں۔
5۔جب آپ کچھ نیا تخلیق نہ کر پائیں اس وقت ا?پ کام کر سکتے ہیں۔
6۔معمول کاآدمی رہئے۔لوگوں سے ملئے۔مختلف جگہوں پر جائیے۔اپنی پسند کا مشروب پیجئے۔
7۔خشک مزاج ہر گز نہ بنیں۔خوش دلی سے کا م کریں
8۔اگر کام میں جی نہ لگ رہا ہو تو فی الوقت روک دیجئے اور اگلے دن پوری توجہ کے ساتھ کام میں جت جائیں۔
9۔ان تمام کتابوں کو بھول جائیں جو آپ لکھنا چاہتے ہیں۔صرف اس پر توجہ دیں جس پر آپ کا کام جاری ہے۔
10۔لکھنے کے کام کو ہمیشہ ترجیح دیں۔ مصوری، موسیقی،دوست،سینما یہ سب ثانوی چیزیں ہیں۔
کرٹ وونے گرٹ:(Kurt Vonnegut)
’’میں ہمیشہ ڈنٹ پیلتا اور اٹھک بیٹھک کرتا ہوں۔‘‘
1956ء میں کرٹ نے اپنی اہلیہ کو ایک خط لکھاجس میں اس نے اپنی روزانہ کی مصروفیات کا ذکر کیا تھا۔ بعد میں یہ خط اس کی کتاب ’’کرٹ وونیگرٹ لیٹرز‘‘ میں شائع ہوا۔
’’میں ساڑھے پانچ بجے بیدار ہو کر تقریباً ساڑھے آٹھ بجے تک مسلسل کام کرتا ہوں۔ ناشتہ کر کے پھر سے دس بجے تک کام کرتا ہوں۔اس کے بعد گھر کے کچھ کام ،قصبے میں چہل قدمی اور قریبی میونسپل سوئمنگ پول میں کوئی آدھ گھنٹہ تیراکی کے بعد تقریباً پونے بارہ بجے واپس گھر لوٹتا ہوں۔ای میلز دیکھنے اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اسکول کے لیکچر کی تیاری کرتا ہوں۔
شام ساڑھے پانچ بجے تک اسکول میں رہتا ہوں۔رات کو ہلکا پھلکا کھانا کھا کر میں ریڈیو پر موسیقی سننے کے علاوہ کچھ مزید مطالعہ بھی کرتا ہوں۔ سونے کے لئے میں دس بجے سے زیادہ تاخیر نہیں کرتا۔ میں اکثر ڈنٹ پیلتا اور اْٹھک بیٹھک کرتا رہتا ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرا جسم نرم اور لچک دار ہو رہا ہے۔‘‘
جوڈی پیکالٹ:(Jodi Picoult)
’’آپ کورے کاغذ کو ایڈیٹ نہیں کر سکتے۔‘‘
نیو یارک ٹائمز کے مطابق جوڈی پیکالٹ کی سات کتابیں بیسٹ سیلر رہ چکی ہیں۔ پیکالٹ نے نوح چارنی کو ایک انٹرویو میں اپنی لکھنے کے عادات سے یوں آگاہ کیا۔
’’میں لکھاریوں کی بندش (Block)کی قائل نہیں ہوں۔رائٹرز بلاک کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔جب آپ کو کالج کا کوئی فوری نوعیت کا کام کرنا ہوتا ہے تو آپ ایک رات قبل ساری تیاری کر لیتے ہیں۔
رائٹرز بلاک کا مطلب بس اتنا ہے کہ لکھاری کے پاس وقت بہت زیادہ ہے۔اگر آپ کے پاس بہت محدود وقت ہو اور آپ کے ذمے کام ہو تو آپ یقیناًکر گزریں گے۔یہ ٹھیک ہے آپ ہر دن بہت اچھا نہیں لکھ پاتے لیکن کم از کم ایک بڑے صفحے کو ایڈیٹ تو کر سکتے ہیں۔ظاہر ہے اگر صفحہ خالی ہوا تو اپ ایڈیٹ کیا کریں گے۔
مایا اینجلو:(Maya Angelou)
’’آسانی سے پڑھی جانے والے تحریر بہت مشکل سے لکھی جاتی ہے۔‘‘
امریکن شاعر اور لکھاری مایا اینجلو نے 2013ء میں ایک روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے تصنیفی کیرئیر اور روزمرہ مصروفیات کے بارے میں بتایا:
’’میں اپنے علاقے میں کسی ہوٹل کا کمرہ ماہانہ معاوضے پر کرائے پر لیتی ہوں۔ ہر روز تقریباً ساڑھے چھ بجے صبح وہاں پہنچ جاتی ہوں۔وہاں میرے پاس بیڈ روم،بستر اور باتھ کی سہولت موجود ہوتی ہے۔راجرٹ تھیزارس ڈکشنری اور بائبل میرے پاس ہوتی ہے۔عام طور پر تاش کے پتے اور لفظی معمے (cross۔word puzzle) بھی میرے پاس ہوتے ہیں جو میرے چھوٹے دماغ کو مصروف رکھ سکیں۔میں ہر طرح کی پینٹنگز اور آرائشی اشیاء کمرے سے اٹھوا دیتی ہوں۔
ہوٹل کی انتظامیہ کو بتا دیتی ہوں کہ کوئی بھی شخص میرے کمرے میں داخل نہ ہو جب تک میں خود کاغذ پر لکھ کر کوئی چیز باہر نہ پھینکوں۔ہر دو ماہ بعد مجھے دروازے کے نیچے سے ایک رقعہ ملتا ہے۔
جس پر لکھا ہوتا ہے’’ڈئیر مس اینجلیو!برائے مہربانی ہمیں بستر کی چادریں وغیرہ تبدیل کرنے دیجیے۔ہمارا خیال ہے کہ وہ میلی ہو گئی ہوں گی‘‘ لیکن میں وہاں کبھی سوتی نہیں۔میں دو بجے وہاں سے باہر آ جاتی ہو۔گھر جا کر وہ سب کچھ پڑھتی ہوں جو میں نے صبح لکھا ہوتا ہے۔
اسے ایڈیٹ اور مزید صاف کرتی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ آسان مطالعے کے مواد کا لکھنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔بے ڈھنگے انداز سے لکھا گیا موادپڑھنا بہت تکلیف دہ ہو تا ہے۔یہ قاری تک وہ پیغام نہیں پہنچا سکتا جو ایک محتاط لکھاری قاری کو دینا چاہتا ہے۔
باربرا کنگ سولور(Barbara Kingsolver)
’’مجھے پہلا صفحہ لکھنے سے قبل سینکڑوں صفحات لکھنا پڑتے ہیں۔‘‘
پٹلر پرائز یافتہ باربرا کنگ سولور درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ کی آخری نو کتابیں ریکاڈر فروخت ہوئیں۔ 2013 ء میں انہوں نے اپنے ایک انٹر ویو میں ایک لکھاری اور ماں ہونے کے اعتبارسے اپنے معمولات پر یوں روشنی ڈالی۔
’’میں صبح سویرے اٹھنے کی عادی ہوں۔لگ بھگ چار بجے میر ی آنکھ کھل جاتی ہے۔ہر صبح میری کوشش ہوتی ہے کہ سورج نکلنے سے قبل بستر نہ چھوڑوں۔لیکن اس وقت میرا ذہن الفاظ سے بھرپور ہوتاہے۔
میری شدید ضرورت ہوتی ہے کہ میں اپنی لکھائی کی میز پر جا کر ان الفاط کا بوجھ ورق پر اتار دوں۔اس دوران جملے اور فقرے میرے ذہن میں کلانچیں بھر رہے ہوتے ہیں۔سو ہر روز اپنی لکھائی کی میز کی طرف جانا ایک مستقل ایمر جینسی کی طرح لگتا ہے۔یہ سب بہت دلچسپ ہے۔ اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں کس طرح اپنے لکھنے کے عمل کو منظم بناتی ہوں۔تو میرا جواب ہوتا ہے کہ میرے نزدیک کمپیوٹر بند کر کے ڈیسک چھوڑ کر اور کاموں میں لگ جانا ہی ڈسپلن ہے۔
میں بہت سا ایسا مواد بھی لکھتی ہو ں جس کے بارے میں مجھے یقین ہوتا ہے کہ اسے لازمی طور پرردی کی ٹوکری کا رزق ہی بننا ہے۔لیکن یہ میرے تخلیقی عمل کا ایک اہم حصہ ہے۔مجھے کتاب کا پہلا صفحہ لکھنے سے قبل سینکڑوں صفحات لکھنا ہوتے ہیں۔میں ایک ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماں بھی ہوں۔میں نے اپنی پہلی کتاب کا معاہدہ اس وقت کیا تھا جب میں ابھی ہسپتال سے اپنا پہلا بچہ جنم دے کر گھر پہنچی تھی۔
گویا میں ناول نگار اور ماں ایک ہی وقت میں بنی۔بچے جب چھوٹے تھے تو مجھے لکھنے میں مشکلات پیش آتی تھیں اب جب کہ وہ خود اپنے کام کرنے کے قابل ہوگئے ہیں تو مجھے لکھنے کا کافی موقع ملتا ہے۔ میرے نزدیک لکھنے کا وقت بہت قیمتی ہے جس کا میں بہت رغبت سے انتظار کرتی ہوں۔ سویرے اٹھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت کسی کو میری ضرورت نہیں ہوتی۔ماں ہونے نے مجھے ایک بہتر لکھاری بننے میں بہت مدد دی ہے۔ اور اگر میں کہوں کہ لکھاری ہونے نے مجھے ایک اچھی ماں بنایا ہے تویہ بھی درست ہے۔
ناتھن انگلینڈر:(Nathan Englander)
’’اپنا موبائل فون بند کر دیجیے۔‘‘
ایوارڈ یافتہ افسانہ نگار ناتھن انگلینڈر ایک انٹر ویو میں لکھنے کے عمل کو متاثر کرنے والے امور کا ذکر کرتے ہیں۔
’’اگر آپ واقعی کام کرنا چاہتے ہیں تو اپنا موبائل فون بند کر دیجئے۔فیس بک ،انسٹا گرام ،ای میل،ٹیکسٹ میسجز سے مکمل اجتناب۔ لکھتے ہوئے ایسا کرنا بہت ضروری ہے۔ اگرچہ یہ تسلیم کرنا عجیب سا لگتا ہے لیکن میں گھر میں مکمل خاموشی کے باوجودگھنٹوں کانوں میں پلگ ڈال کر لکھتا رہتا ہوں‘‘
اے جے جیکبز:(A.J. Jacobs)
’’ خود کو نئے آئیڈیاز تخلیق کرنے پر آمادہ کیجیے۔‘‘
جیکبز نے ایک انٹرویو میں اپنے معمولات بتانے کے بعد نئے لکھاریوں کو اس اندازمیں ہدایت کی ہے۔
’’میرے بچے مجھے صبح جگا دیتے ہیں۔میں ان کے لئے ناشتہ تیار کرتا ہوں۔ انھیں اسکول چھوڑتا ہوں۔واپس آکر لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔کئی مرتبہ مجھے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھرمیں اپنا انٹرنیٹ بند کر دیتا ہوں۔ اس طرح مجھے معلومات کے طوفان سے کسی قدر پناہ ملتی ہے۔ میں آوٹ لائننگ کا بہت دلدادہ ہوں۔پہلے میں ایک مختصر آوٹ لائن لکھتا ہوں پھر ذرا تفصیلی۔
اس کے بعد اس میں مزید اضافہ کرتا رہتا ہوں، اس طرح کتاب بن جاتی ہے۔میں پاوں چکی (treadmill)پر چلتے ہوئے بھی لکھتا ہوں۔بیٹھنا آپ کے لئے زیادہ اچھا نہیں ہوتا۔ ایک ڈاکٹر نے مجھے کہا تھا کہ ’’ بیٹھنا سموکنک(نشے) کی نئی شکل ہے‘‘۔سو میں پاوں چکی (treadmill) لے کر آیا۔اب میں ایک کتاب کی تکمیل کے دوران لگ بھگ 1200 کلو میٹر چل چکا ہوتا ہوں۔مجھے یہ پسند ہے کیونکہ یہ عمل مجھے بیدار رکھتا ہے۔
نئے لکھاریوں کے لئے ان کا کہنا ہے کہ ’’ خود کو نئے آئیڈیاز تخلیق کرنے کی طرف مائل کریں۔ممکن ہے ان میں بہت سے آئیڈیاز خوف ناک بھی ہوں۔ لیکن ان میں کچھ چمکدار عناصر ضرور ہو ں گے۔روزانہ کم از کم بیس منٹ غوروفکر (Brainstormin) کو لازمی دیں۔
خالد حسینی:(Khaled Housseni)
’’آپ کو لکھتے رہنا چاہئے چاہے آپ اسے پسند کرتے ہوں یا نہیں۔ ‘‘
’’نوح چارنی کو ایک انٹرویودیتے ہوئے حسینی نے ایسے امور پر بات کی ہے جن کی جانب سب لکھنے والوں کو توجہ دینی چاہیے۔
’’میں آوٹ لائننگ کا قائل نہیں ہوں۔مجھے یہ مفیدمعلوم ہوتی ہے اور نہ ہی میں خود کو مختلف خانوں(boxes)میں قید کرنا چاہتا ہوں۔میرا خیال یہ ہے کہ کہانی کو اپنا راستہ خودبنانے دینا چاہئے۔
یہی وجہ ہے میرے نزدیک پہلا مسودہ لکھنا بہت مشکل اور مشقت طلب کام ہے۔مجھے دوبارہ لکھنا اچھا لگتا ہے۔ پہلا مسودہ تو محض خاکہ ہوتا ہے میں اس میں اضافے کرتا ہوں۔
اس میں تہیں،پہلواور مزیدرنگ بھرتا ہوں۔دوبارہ لکھتے ہوئے مجھے احساس ہوتا ہے کہ اب کہانی میری حقیقی توقع کے قریب تر تشکیل پارہی ہے۔اس سے مجھے اطمینان ملتا ہے۔
مجھے بہت سے ایسے لوگ ملے جو کہتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں ایک کتاب ہے مگر ہم نے آج تک ایک لفظ بھی نہیں لکھا۔ میرے خیال میں انھیں لکھنا چاہیے۔
ہر روز لکھنا چاہئے چاہے آپ اسے پسند کرتے ہوں یانہیں۔کم ازکم ایک قاری کے لئے لکھئے اور وہ قاری بھلے آپ خود ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ کہانی لکھئے جو آپ کہنا یا پھر سننا چاہتے ہیں۔ لوگ کیا چاہتے ہیں یہ جاننا بہت دفعہ ناممکن ہوتاہے سو اندازے لگانے میں وقت ہرگزضائع نہ کریں۔
چند عام مگر اہم اصول
1۔ خو د کو ذہنی طور پر محنت کا عادی بنائیے
2۔زیادہ اہم چیز کو پہلے مکمل کریں اس کی جانب پوری توجہ دیں۔
3۔چیلنج کو قبول کریں اور کوشش میں تسلسل کو یقینی بنائیں۔
ظاہر ہے ہر شخص کی لکھنے کی عادات مختلف ہوتی ہیں۔ ان مذکورہ بالا سطور میں بہت سے ایسے عام اصول آ چکے ہیں جو نئے لکھنے والوں کے لئے خاص طور پر اہم ہیں۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…