پاکستان بنگلادیش سے بھی زیادہ غریب ہوگیا 2030تک امداد مانگنے کی نوبت آنے کا امکان

3  جون‬‮  2021

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان اور بھارت اب بنگلادیش سے غریب ہوگئے،بنگلادیش کی فی کس آمدنی، تین لاکھ 44ہزار، پاکستان کی دو لاکھ38ہزار اور بھارت کی تین لاکھ روپے ہوگئی۔گزشتہ سال بنگلا دیش کی جی ڈی پی نمو میں نو فی صد اضافہ ہوا۔سن1971 میں، پاکستان بنگلا دیش سے 70 فیصد امیر تھا،روزنامہ جنگ میں رفیق مانگٹ

کی شائع خبر کے مطابق آج بنگلا دیش پاکستان سے 45 فی صد امیر ہے ۔ بنگلا دیش کئی بھارتی ریاستوں سے کہیں زیادہ امیر ہے ،گزشتہ عشرے بنگلا دیش کی برآمدات میں آٹھ عشاریہ چھ فیصدسالانہ اضافہ جب کہ دنیا کی برآمدات میںصرف اوسط عشاریہ چار فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔بھارت اور پاکستان کو اپنے ایک غریب ہمسایہ بنگلا دیش سے بہت کچھ سیکھنا ہوگا ۔ بنگلادیش نے قرض ٹو جی ڈی پی کا تناسب تیس اور چالیس فی صد کے درمیان برقرار رکھاہے۔بھارت اور پاکستان دونوں وبا سے جی ڈی پی کے نوے فیصد قرض کے قریب تناسب سے ابھریں گے۔ مالیاتی کنٹرول نے بنگلا دیش کے نجی شعبے کو قرض لینے اور سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دی ہے۔امریکی میڈیا رپورٹ کے تفصیلی رپورٹ کے مطابق نصف صدی قبل بنگلا دیش پاکستان سے الگ ہوا ،اس کی تخلیق قحط اور جنگ کے دوران ہوئی ،اس وقت یو ں لگا کہ بنگلادیش ناکام ہو جائے گا ۔حال ہی میں بنگلہ دیش کے کابینہ سیکرٹری نے بتایا کہ گذشتہ سال جی ڈی پی نمو میں

9 فیصداضافہ ہوا اور فی کس آمدنی تین لاکھ 44ہزار روپے( 2227 ڈالر) ہو گئی۔ اس دوران پاکستان کی فی کس آمدنی دو لاکھ38روپے(1543ڈالر) ہے۔ 1971 میں، پاکستان بنگلا دیش سے 70 فیصد امیر تھا ،آج بنگلا دیش پاکستان سے 45 فی صد امیر ہے۔ایک پاکستانی ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ امکان کہ پاکستان2030 میں بنگلہ دیش سے امداد حاصل کرے۔

بھارت جوجنوبی ایشیائی معیشت میں ہمیشہ سے پراعتماد رہا ، اب اس حقیقت سے اسے بھی دوچار ہونا چاہئے کہ وہ بھی فی کس آمدنی کے لحاظ سے بنگلہ دیش سے غریب ہے۔2020۔21 میں بھارت کی فی کس آمدنی صرف تین لاکھ روپے( 1947)ڈالر ہے۔ بھارت کیلئے بنگلہ دیش کی کامیابی کو تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں، بھارت میں دائیں بازو کے افراد اس بات پر

قائل ہیں کہ بنگلاہ دیش اتنا بے سہارا ہے کہ وہاں سے غیرقانونی تارکین وطن یہاں آتے ہیں ۔حقیقت میں بنگلا دیش کئی بھارتی ریاستوں سے کہیں زیادہ امیر ہے جہاں ہندو قوم پرست سیاستدان بنگلا دیشی ’’دیمکوں‘‘ کے خلاف صف آراء ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مسیسیپی کینیڈا سے غیر قانونی امیگریشن کے بارے میں پریشان ہیں۔ایسا کیوں کہ جب جی ڈی پی نمبروں

کی بات آتی ہے تو بھارتی سوشل میڈیا غصے اور انکار سے آپے سے باہرہوجاتا ہے۔بنگلہ دیشی میڈیا موازنہ کرنے کے حوالے سے پیچھے رہاہے ، یہ خود اعتمادی ہے جو مستقل طور پر بڑھتے ہوئے سامنے آتی ہے۔ بنگلا دیش کی نمو برآمدات، معاشی ترقی اور مالی حکمت عملی جیسے تین ستونوں پر کھڑی ہے ۔ 2011 اور 2019 کے درمیان، بنگلا دیش

کی برآمدات میں ہر سال آٹھ عشاریہ چھ فیصد اضافہ ہوا، اگر دنیا سے موازنہ کیا جائے تو دنیا کی برآمدات صرف اوسط عشاریہ چار فی صدہے۔ کامیابی کی بڑی وجہ ملک کی ملبوسات جیسی مصنوعات پر لگاتار توجہ مرکوز کرنا ہے جس میں اس کو تقابلی فائدہ حاصل ہے۔ لیبر فورس میں بنگلا دیشی خواتین کا حصہ مستقل طور پر بڑھ رہا ہے، بھارت اور پاکستان کے

برعکس، جہاں اس میں کمی واقع ہوئی ہے۔بنگلہ دیش کی کامیابیاں اس کے لئے پریشانیوں کا باعث بھی ہیں ۔ترقی یافتہ معیشتیں انہیں ٹیرف فری رسائی کی اجازت دیتی ہیں۔یہ گروپنگ صرف دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک کے لئے ہے۔ معاشی ترقی کی بدولت، بنگلا دیش کو ممکنہ طور پر 2026 ء تک ان مراعات سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ جیسے اس کی

معیشت کی پختگی ہوگی، ویتنام اور دیگر کی طرح، اس کے تقابلی فوائد میں بھی تبدیلی آئے گی۔اس کے بعد اسے ملبوسات سے زیادہ قدر کی برآمدات کی طرف جانا پڑے گا۔یہ تبدیلی بنگلا دیش کے لئے امتحان ہوگی۔ حکومت کو اگلی دہائی کے لئے ایک حکمت عملی کی ضرورت ہے جو عالمی انضمام کی نئی شکلوں اور معیشت کی مسلسل تبدیلی پر مرکوز ہو ،

اس کی ترجیح یہ ہوکہ آزاد تجارت کے معاہدوں پر دستخط کرکے دنیا کی ترقی یافتہ مارکیٹوں تک رسائی برقرار رکھے۔بنگلادیشی عہدیداروں کے مطابق، جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن کے ساتھ ایف ٹی اے پر کام شروع ہوچکا ہے، لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔خود ویتنام کے خلاف، جو نہ صرف چین پر مبنی علاقائی جامع معاشی شراکت کا حصہ ہے اور ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ کا جانشین ہے، بلکہ اس نے 2019 میں یورپی یونین کے ساتھ ایف ٹی اے پر دستخط بھی کیے تھے۔ بنگ۲لہ دیش کی تجارت کی شرائط میں تبدیلی نہیں ہوگی۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…