’’نیب کے ایسا کرنے سے پہلے میں تمہیں ذلت سے بچانے کیلئے قتل کردوں گا‘‘ نیب کے ذریعے بنائی گئی بیوہ اب خواب دیکھتی ہے، لفافہ خوف کا وائرس ہے بریگیڈیئر (ر) اسد منیر نے خودکشی سے قبل کیا الفاظ لکھے تھے ؟ بیوہ کے تہلکہ خیز انکشافات

15  مارچ‬‮  2020

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ایک سال گزرنے کے بعد سعیدہ اب بھی قرار پرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ سکوت توڑنا چاہتی ہے لیکن نہیں جانتی کہ شروعات کہاں سے کرے۔روزنامہ جنگ میں شائع  عمر چیمہ کی رپورٹ کے مطابق وہ ٹراما سے نکل نہیں پائی ہے۔ سعیدہ کے دماغ میں بہت سے سوالات ہیں لیکن وہ ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کبھی کبھار میں لفافوں پر ناول لکھنے کا سوچتی ہوں‘۔

لفافہ خوف کا ایک وائرس تھا۔ وہ اسے اپنے شوہر سے زیادہ سے زیادہ وقت چھپاتی۔ اور ایک مرتبہ اس کا شوہر یہ لفافہ وصول کرلیتا تو وہ اسے زمین پر ہر کسی سے چھپانے کی کوشش کرتا جن میں اس کے بچے اور خاندان کے دیگر افراد شامل ہیں۔ یہ لفافہ اس کا دم گھوٹتے ہوئے اور دنوں اور ہفتوں بے جان چھوڑتے ہوئے اس کے چہرے سے مسکراہٹیں چھین لیتا۔ لفافے میں اسے نیب سے نوٹسز ملے ہوتے۔ بالآخر اس کے خلاف بدعنوانی، جو اس نے کبھی نہیں کی، کا ریفرنس دائر کرنے کے بعد یہ مہلک ثابت ہوا۔اسے بدعنوان طریقوں کے ملزم کے طور پر لیبل لگنے کا خوف تھا۔ وہ میڈیا کے سامنے پریڈ کرنے اور عوام میں ذلیل نہیں ہونا چاہتا تھا۔ پاکستان جیسے ملک میں الزام کا مطلب فیصلہ ہوتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ کسی کی نیک نامی کو تباہ کرنے کیلئے کافی ہے خواہ بعد میں اگرچہ اسے الزامات سے بری کردیا جائے۔ اور قومی احتساب بیورو ذرہ برابر بھی ندامت کے بغیر یہ سبکرنے کیلئے بدنام ہے۔ بالآخر اس نے خود کو الزامات سے پاک کرنے کے لئے جس سزا کا فیصلہ کیا وہ تمام سزاؤں کی ماں ہے۔ اس نے ایک اہلیہ، دو صاحبزادیاں اور ایک نواسی کو سوگوار چھوڑتے ہوئے خود کو مار ڈالا۔ جب بریگیڈیئر (ر) اسد منیر نے ایک سال قبل اسی دن خود کشی کی تھی تو اس خبر نے بہت سوں کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کردیا۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ خوش مزاج شخص اس حد تک بھی جاسکتا ہے۔

عوامی طور پر وہ زندگی سے بھرپور تھے اور معاشرتی پروگراموں اور ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر ان کی ٹویٹس قہقہے بکھیر دیتی تھیں۔ لیکن نجی طور پر وہ نیب کی جانب سے ذہنی اذیت سہہ رہے تھے جو اس وقت دگنا ہوگئی جب انہیں لفافہ موصول ہوا۔ اس طرح کے لفافوں میں انہیں نیب کے نوٹسز ملا کرتے تھے جو ان کی زندگی کا حصہ بن گئے تھے۔ یہ کیس کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں

ان کے بطور رکن (اسٹیٹ) انجام دہی سے متعلق تھا۔ چیئرمین سی ڈی اے نے 2008 میں پلاٹ بحال کیا تھا اور اسد کو سفارش کرنے میں ملوث کیا گیا تھا۔ اسد کی دلیل تھی کہ یہ سی ڈی اے بحالی پالیسی 2007 کے مطابق تھا۔ انہوں نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنے خودکشی کے نوٹ میں لکھا کہ ہر دفعہ وہ نیب کے تفتیش کاروں کے سامنے پیش ہوئے جو ’بدتمیز، نا اہل، گھمنڈی

اور غیر تربیت یافتہ تھے‘۔ سعیدہ یاد کرتی ہیں کہ نیب سے واپسی پر ایک دن وہ بالکل ٹوٹ گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے سے آدھے عمر کی خاتون تفتیش کار کا سامنا کیا۔ جب انہوں نے بے گناہی کی درخواست کی تو اس نے کوئی توجہ نہ دی اور کہا کہ یہاں تو ہر کوئی معصوم بننے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ لائن کسی ایسے شخص کو اذیت دینے کیلئے کافی تھی جس کے پاس صرف ایک اپارٹمنٹ، پاکستان

اور بیرون ملک کوئی گھر نہیں، کوئی کاروبار اور کوئی کمرشل املاک نہیں۔ اس کے اثاثے صرف ایک اپارٹمنٹ، 2005 ماڈل کار اور معمولی سی بچت تھی۔ وہ ناصرف نیب انکوائری کا سامنا کر رہے تھے بلکہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں بھی شامل کردیا گیا تھا۔ پھر سے انہوں نے ای سی ایل والی خبر اپنے قریبی رشتہ داروں سے خفیہ رکھی۔ اتنی زیادہ خفیہ کہ ان کی صاحبزادیوں کو بھی علم نہ ہوا۔ اسد نے

اپنی نواسی کو صرف ایک تحفہ دینے کا وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے اس کی سالگرہ پر پیرس میں ڈسنی لینڈ لے کر جائیں گے۔ وہ مسلسل دو سالگرہ پر اپنا وعدہ نہیں نبھا سکے کیونکہ وہ ای سی ایل پر تھے۔ اسے وجہ بتانے کے بجائے انہوں نے بیماری کے جھوٹے بہانے یا مصروف شیڈول کے بہانے بنائے۔ اس پر حقیقت اس وقت کھلی جب اسد نے خودکشی کی۔ ان کیلئے دوسروں کے ساتھ نیب کی داستان کا

تذکرہ کرنا خود کو داغ دار کرنا تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بچے یہ شک کریں کہ وہ کسی بدعنوان عمل میں ملوث ہیں۔ انا ایک اور مسئلہ تھا۔ سعیدہ کا کہنا تھا کہ وہ کسی کی بھی حمایت مانگنا نہیں چاہتے تھے خاص طور پر جب انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا۔ ان کے ایک دوست نے بتایا کہ اسد کیلئے کرپشن ایک خوفناک الزام تھا۔ اتفاقاً ان کے دوست بھی ایک مختلف کیس میں نیب انکوائری کا سامنا کر رہے ہیں۔

اسد کے دوست نے بتایا کہ ایک دن وہ ان کے گھر آئے اور انکوائری کے حوالے سے پوچھا۔ جوں ہی اسد کو انکوائری کا بتایا تو انہوں نے جذباتی انداز میں کہا کہ ’میں انہیں تم کو گرفتار کرنے نہیں دوں گا۔ نیب کے ایسا کرنے سے پہلے میں تمہیں ذلت سے بچانے کیلئے قتل کردوں گا‘۔ ان کے دوست کو نہیں معلوم تھا کہ جو حمایت اسد ان کیلئے کر رہے تھے وہ ایک دن خود کے ساتھ ایسا کردیں گے۔

اس بدقسمت رات وہ ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے اور اس کی آواز بند کر رکھی تھی جبکہ وہ اپنی صاحبزادی مینا گبینا سے گفتگو کر رہے تھے۔ وہ پرسکون موڈ میں تھے۔ مینا نے بتایا کہ ہم باتیں کرتے ہوئے ٹی وی پر سی ڈی اے رکن اسٹیٹ کے خلاف نیب ریفرنس کے حوالے سے ٹکرز دیکھ رہے تھے۔ میں نے ان کی توانائی کو اپنے سامنے کم ہوتے ہوئے دیکھا اور دیکھا کہ وہ خفیہ انداز میں فون پر پیغام بھیج رہے ہیں

اور میں نے گوگل پر یہ چیک کیا کہ کیا یہ میرے والد کے بارے میں ہے تو مجھے ان کا نام مل گیاـ۔ مینا نے بتایا کہ وہ ان کے ساتھ نیب سے متعلق معاملے کو شیئر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ وہ یہاں سے چلی جاتی ہیں تاکہ ان کے والد آرام سے فون کرسکیں۔ وہ کسی سے ملنے کیلئے اسے ٹیکسٹ پیغامات لکھ رہے تھے تاکہ وہ اپنے اوپر کھوکھلے الزامات کی نوعیت کے

بارے میں اسے سمجھا سکیں۔ اس شخص نے کچھ دن بعد ان سے ملنے کی حامی بھرلی۔ لیکن اسد اس مدد کی درخواست پر پچھتانے لگے۔ جب وہ ٹی وی لاؤنج سے غائب تھے تو سعیدہ نے ان کی تلاش شروع کی اور انہیں بالکونی میں پایا جو ان کے بیٹھنے کیلئے غیرمتوقع جگہ تھی۔ انہیں پستول کے چیمبر سے زمین پر گرتی گولی کی آواز آئی۔ جب ان کی اہلیہ نے انہیں کسی شدید اقدام کرنے کے خلاف تسلی دینے

اور راضی کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے سسکنا شروع کردیا۔ انہوں نے تسلیم کرتے ہوئے بتایا کہ اس پستول نے انہیں دھوکا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خود کو گولی مارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب ان کی اہلیہ نے ان سے پستول لے لی تو انہوں نے ایک اور انکشاف کیا کہ انہوں نے پھانسی لگانے کیلئے ایک رسی بھی خریدی ہے جسے ان کی اہلیہ نے ان کے کوٹ سے برآمد کرلیا۔ اسد نے سعیدہ کو

اس جگہ سے جانے کو کہا اور دو نوٹس پڑھے جو انہوں نے سعیدہ کے لئے لکھے تھے۔ ایک خود کشی کا نوٹ تھا جو چیف جسٹس آف پاکستان کیلئے لکھا گیا تھا اور ایک ان کی اہلیہ کے نام تھا جس میں انہوں نے اپنی اہلیہ سے خودکشی کے عمل کی معافی مانگی تھی، وصیت لکھی تھی اور اپنی صاحبزادیوں کی دیکھ بھال کی درخواست کی تھی۔ سعیدہ نے ان کے بغیر بالکونی سے جانے سے انکار کردیا۔

وہاں سے جاتے ہوئے اسد اپنے بیڈروم میں چلے گئے اور سعیدہ نے ان نوٹس کے اسکرین شاٹس لے کر کسی کو بھیجے اور کسی شدید اقدام کے خلاف انہیں قائل کرنے کی درخواست کی۔ اس شخص نے صبح آنے کا وعدہ کیا۔ پریشانی کی حالت میں سعیدہ رات 2 بجے تک جاگتی رہیں۔ اس یقین کے بعد کے اسد گہری نیند میں ہیں وہ بھی سو گئیں۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد ان کی آنکھ کھلی تو اسد بیڈ روم میں نہیں تھے۔

وہ ٹی وی لاؤنج گئیں تو وہاں بھی نہیں تھے۔ انہیں وہ مطالعے کے کمرے میں پھانسی پر لٹکے ہوئے ملے۔ یہ ایک شدید المناک نظارہ تھا جس نے انہیں غم کی حالت میں چھوڑ دیا ہے کہ وہ اب بھی اس سے باہر آنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کے مقتول شوہر کے لئے انصاف کی جستجو ان کے غم سے بڑی ہے۔ انہوں نے دی نیوز کو بتایا ’مجھے نہیں معلوم کہ کیا کروں۔ میں نظام سے نہیں لڑ سکتی اس کے باوجود میں

ان کیلئے انصاف چاہتی ہوں‘۔ سپریم کورٹ نے اسد کے خودکشی کے نوٹ پر نوٹس لیا تھا اور نیب کو اس کیس پر رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔ جہاں یہ تسلیم کیا گیا کہ اسد (سی ڈی اے سے پہلے) نے نیب میں بھی خدمات سرانجام دیں اور وہ ایماندار افسر تھے۔ نیب کا کہنا تھا کہ انہیں نا تو سوالات پوچھنے کیلئے طلب کیا گیا اور نا ہی ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے گئے۔ ان دونوں نکات پر سعیدہ نے

سخت مقابلہ کیا ہے جن کے پاس نیب کے دعوے کی تردید میں تمام ثبوت ہیں۔ چونکہ نیب کی رپورٹ کو کبھی بھی عام نہیں کیا گیا، صرف سعیدہ کو اس کی ایک جھلک دیکھنے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے وہ رپورٹ پڑھنے کے بعد سپریم کورٹ کو ایک خط لکھا۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے کارروائی کرنے پر شکریہ ادا کرنے کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ان کے شوہر کو الزامات سے بری کیا جائے جیسا کہ

ان کی کرپشن ثابت کرنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ آخر میں انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ جب عدالت اپنا فیصلہ دے تو ان کے خط کو شامل کیا جائے۔ اس کا ابھی تک انتظار ہے۔ ایک سال قبل جب سے اسد نے اپنی جان لی ہے بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ ملزم نے جو مادی فائدہ اٹھایا ہے اس کے ثبوت کے بغیر اختیار کے ناجائز استعمال پر کسی کوسزا دینے کے نیب کے اختیار کو کم کرنے کے لئے نیب آرڈیننس جاری کیا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے تحریر کیا گیا حالیہ فیصلے نے نیب کو کسی کو جاری تفتیش میں گرفتار کرنے سے روک دیا ہے خصوصاً جب ملزم انکوائری افسران سے تعاون کر رہا ہو۔ تاہم سعیدہ کیلئے نا تو ان کے شوہر کو بدعنوانی کے الزامات کی تازہ ترین تاریخ کے طور پر کلیئر کیا گیا ہے نا ہی نیب کو اسد کی بے وقت موت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ چنانچہ سعیدہ کا درد دور نہیں ہوا ہے۔ درد سے زیادہ اس کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے مقتول شوہر کے لئے کچھ کرنے سے قاصر ہے۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…