چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں شکست،دو سینیٹرز نے رابطہ کرنے والوں کے نام بتادیئے،بلاول زرداری کے حیرت انگیز انکشافات

3  اگست‬‮  2019

لاہور(این این آئی)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ اپوزیشن ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بجائے دھاندلی کرنے والی کٹھ پتلی حکومت او رغیر جمہوری قوتوں پر فوکس کرے اور اصل چہرے سامنے لے کر آئے، ہمارے دو سینیٹرز کے مطابق ان سے جہانگیر ترین اور گورنر پنجاب نے کسی ذریعے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی،

حقائق جاننے کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی ہے اور تحقیقات میں ثابت ہونے تک کسی کو پارٹی سے نہیں نکالا جا سکتا لیکن حقائق سامنے آنے پر ضرور کارروائی کی جائے گی ِ،جو کہتے ہیں سندھ حکومت ہٹا دیں گے وہ اسے ہٹا کر دکھائیں ہم 90روز میں ضمنی انتخابات میں پہلے سے زیادہ اکثریت کے ساتھ واپس آئیں گے، ماضی میں حساس ادارے کا سیاست اور دھاندلی میں کردار رہا ہے امید ہے کہ موجودہ سربراہ اپنے ادارے کو سیاست سے دور رکھیں گے اور اسے متنازعہ نہیں بننے دیں گے، ہم پتہ ہے آرٹیکل 6 کہاں لگتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ بلاول ہاؤس لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج ملک کی معیشت جس حال میں ہے وہ سب کے سامنے ہے، عوام،مزدور،کسان،نوجوان اورصحافیوں کا معاشی قتل ہو رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام کے معاشی حقوق کا تحفظ کیا ہے اور ہم رسمجھتے ہیں کہ جب تک انسانی حقوق محفوظ نہیں ہوں گے تب تک ہمارے معاشی حقوق محفوظ نہیں رہیں گے۔جہاں متحدہ اپوزیشن کے جلسے جلوس ہوں گے ہم ساتھ ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ آج کل  جمہوریت کے ساتھ جو کیا جارہا ہے وہ سب کے سامنے ہے،اب یونین کونسل سے لے کر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب تک بیلٹ بکس کی تکریم نہیں رہی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے لئے تاریخی جدوجہد کی ہے۔یہ پیغام آ رہا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کو شکست ہوئی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ حکومت کو شکست ہوئی ہے،

غیر جمہوری جمہوری قوتوں کوشکست ہوئی کیونکہ وہ بے نقاب ہوئے ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کو اندازہ تھا کہ ہم ہا رسکتے ہیں اورامید تھی کہ ہم جیتیں گے ، ہمارا مارجن بڑا تھا لیکن جو دھاندلی کر کے جیتے ہیں وہ خود بے نقاب ہوئے ہیں۔ پورے ملک کے سامنے کھلے عام دھاندلی ہوئی، پورے ملک نے دیکھا کہ کیسے64سینیٹرز کھڑے ہوئے او رپھر خفیہ ووٹنگ میں 50 ووٹ نکلے۔پاکستان پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ چیئرمین سینیٹ کو اخلاقی طو رپر استعفیٰ دینا چاہیے کیونکہ اتنے  زور اور دھاندلی کے باوجود آپ اکثریت کا اعتماد نہیں رکھتے،

پچاس سینیٹرز نے آپ کو ہٹانے کا ووٹ دیا جبکہ چالیس نے ساتھ آ پ کا ساتھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے 21سینیٹرز نے اپنے استعفے جمع کر ادئے ہیں لیکن ابھی تک کسی کا استعفیٰ قبول نہیں کیا،اس کے لئے ہم نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی ہے جو سارے مراحل کی تحقیقات کر رہی ہے اور اس وقت تک کسی کو پارٹی سے نہیں نکالا جا سکتا لیکن رپورٹ ملنے کے بعد ضرور ایکشن لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان بھی پہلے اعلان کر چکے ہیں کہ خفیہ بیلٹ سے ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے ہم امید کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی ا س نظام کی تبدیلی میں متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دے گی

اورغیر جمہوری قوتوں کی جانب سے جو ڈاکہ جاتا ہے اس کو ختم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اپنے لوگوں سے تحقیقات کرے گی اورامید ہے کہ دوسری جماعتیں بھی اس طرح کااقدام اٹھائیں گی، مجھے اعتماد ہے کہ میرے سینیٹرز سو فیصد میرے ساتھ ہیں۔ بجٹ ووٹنگ اور سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر بھی ہمارے سو فیصد سینیٹرز موجود تھے۔ ہم نے پوری دلچسپی کے ساتھ یہ مہم چلائی ہے، میں جانتا ہوں کہ میڈیا کو حکم دیا گیا ہے کہ ان قوتوں کوجنہوں نے دھاندلی کی ہے ان پر کسی طرح کا شک نہ ڈالیں اور اپوزیشن کو آپس میں لڑائیں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپوزیشن کسی کے پارٹی ممبران پر الزام نہ لگائیں۔

جب (ن) لیگ پر ڈیل کرنے کے جھوٹے الزام لگائے گئے تو میں نے اس سے انکار کیا  اگر اب میری جماعت پر ناجائز الزام لگا دیا جائے تو یا میری جماعت کے رکن کی طرف نہیں بلکہ میر طرف اشارہ ہے اور میرے خلاف بات ہے ۔ میں اپنے سینیٹرز کی ذمہ داری لیتا ہوں اور باقی جماعتوں کوبھی یہی کردار ادا کرنا چاہیے اور آنر شپ لینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی اس کا جائزہ لے گی کہ  کن سینیٹرز کو پیسوں کی پیشکش کی گئی اور دوسری جماعتیں بھی اس کیا جائزہ لیں۔اگر یہ کہا جائے کہ کسی کو شک کی بنا ء پر پارٹی سے نکال دیا جائے تو میں ایسا نہیں کر سکتا بلکہ میں تحقیقات مکمل ہونے کا انتظار کروں گا

اور میری کوشش ہو گی کہ اصل چہرے سامنے آئیں او رایسے لوگ پی ٹی آئی یا دوسری جماعتوں کو جوائن کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس وقت کٹھ پتلی حکومت اور دھاندلی کرانے والی غیر جمہوری قوتوں پرفوکس کرنا چاہیے کہ کس طر یقے سے غیر جمہوری رویے اور سلیکشن سے وفاداریاں تبدیل کی گئیں اور ان 14لوگوں کی وجہ سے سب پر شک ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہمیں اور موقعوں پر نہیں بخشا جاتا تو کیا وہ ہمیں اس ماحول میں چھوڑ یں گے، کیا مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی او رفضل الرحمان نے جمع تفریق نہیں کی ہو گئی۔ حکومت ایکسپوز ہو گئی ہے اور ہمیں چاہیے کہ حکومت کو بے نقاب کریں،میں ہر فورم پر سیاسی حیثیت میں حکومت کو بے نقاب کرتا رہوں گا۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات کے نظام کو شفاف بنانے کے لئے اصلاحات اور ترامیم لانی چاہئیں اور پی ٹی آئی کی حکومت اس کا خود اعلان کر چکی ہے۔اگر ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نئے انتخابات کرائے جائیں تو  اس سے پہلے قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ ملک میں صاف اور شفاف انتخابات ہو سکیں۔ انہوں نے سندھ حکومت کو گرانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ 2007ء سے کچھ لوگوں کو خواب نظر آرہا ہے کہ سندھ حکومت کو گرایا جائے گا لیکن سندھ حکومت آج بھی قائم و دائم ہے۔ جو باتیں کرتے تھے خواب دیکھتے تھے وہ چلے گئے۔ جو کہتے ہیں کہ ہم سندھ حکومت ہٹائیں گے وہ ہٹا کر دکھائیں ہم 90روز میں واپس آئیں گے اور زیادہ اکثریت سے آئیں گے۔ انہوں نے صادق سنجرانی کو ہٹانے

کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ جب ہم اپوزیشن میں تھے تو اس وقت حالات اور تھے او رسب کا صادق سنجرانی پر اتفاق تھا او رآج حالات اور ہیں اور سب کا حاصل بزنجو پر اتفاق تھا۔ مجھے پتہ ہے کہ کس جماعت نے پہلی بار صادق سنجرانی کو ووٹ دیا۔ جمہوریت کے مفاد میں ہے کہ متحدہ پوزیشن آپس میں نہ لڑے اور ان لوگوں جنہوں نے دھاندلی کی جنہوں نے خرچ کیا ان پر فوکس کیا جائے۔ انہوں نے حاصل بزنجو کے بیان کے خلاف کارروائی کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے 1973تء کا آئین بنایا ہے، ہم نے 18ویں پاس کی ہے ہم جانتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 6کا کیا مطلب ہے او ریہ کہاں لگتا ہے، یہ صرف آئین توڑنے والوں پر لگتاہے اور جو اس عمل کو جوڈیشل کور دیتے ہیں

ان پر لگتا ہے، صرف بیان پر آرٹیکل 6نہیں لگ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ میر ے پاس حساس ادارے کے سربراہ کے حالیہ انتخاب میں عمل دخل کے خاص شواہد نہیں لیکن اس میں غیر جمہوری قوتیں ملوث تھیں۔ ماضی میں یہ ادارے سیاست اور دھاندلی میں ملوث رہے ہیں۔ حساس ادارے کے سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماضی کی تاریخ جس میں ان کے ادارے کا استعمال ہوا دوبارہ ایسا نہ ہونے دیں اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ادارے کو سیاست سے دور رکھیں گے اور اسے متنازعہ نہیں ہونے دیں گے اور حکومت کو بھی اس کا استعمال نہیں کرنے دیں گے،ہمیں امید ہے کہ وہ ہماری توقعات پر پورا اتریں گے۔ انہوں نے سینیٹ انتخاب میں ووٹنگ کی ویڈیو کلپ کے حوالے سے کہا کہ اس میں ایسا لگ رہا ہے کہ جو کاؤنٹ کر رہا ہے وہ 54کہہ رہا ہے اور جو اناؤنس کیا گیا وہ 50 تھا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے ایک سینٹرز نے اپروچ کر کے بتایا کہ ان سے جہانگیر ترین نے رابطہ کیا ہے اور جس سینیٹر اور ایک اور بندے سے رابطہ کیا اس نے بتایا کہ گورنر پنجاب کسی ذریعے سے ان سے بات کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اپنے سینیٹرز سے پوچھ رہے ہیں اور اس سے بہتر  پتہ چلے گا۔ انہو ں نے آرمی چیف کی مدت ملازت میں توسیع کے حوالے سے کہا کہ ہمیں اس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے،ماضی میں میں عمران خان کہہ چکے ہیں کہ اگر توسیع دی جائے تو ادارے کمزور ہوں گے، جب  ہمارا دور تھا تو اس وقت ہم حالت جنگ میں تھے،سوات میں آپریشن چل رہا تھا او رہم نے اس وقت کی صورتحال کو دیکھ کر فیصلہ کیا اور موجودہ حکومت بھی صورتحال کو دیکھ کر فیصلہ لے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ایسا احتساب کا ادارہ ہو جو بلا تفریق سب کا احتساب کرے،موجودہ جو کالا قانون جسے غیر جمہوری قوتیں استعمال کرتی ہیں اسے ختم کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومت نے مودی کو ایکسپوز کرنے کا موقع ضائع کیا لیکن آج ہمیں اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…