پیر‬‮ ، 30 جون‬‮ 2025 

قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس غیر شفاف طریقے سے دائر اور پیش ہوا،اب کیا ہوگا؟سابق چیف جسٹس(ر)جواد ایس خواجہ نے طریقہ کاربتادیا

datetime 16  جون‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس(ر) جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس غیر شفاف طریقے سے دائر اور غیر شفاف انداز میں پیش کیا گیا،احتساب کے عمل میں سب سے اہم چیز شفافیت ہے،کسی بھی جج کے خلاف کوڈ ا?ف کنڈیکٹ کی خلاف ورزی پر ریفرنس دائر کیا جا سکتا ہیاور اس کی کارروائی کا طریقہ کار سپریم جوڈیشل کونسل کے ضوابط میں درج ہے،سرکار سے پلاٹ یا دیگر مراعات وصول کرنا ججز کا استحقاق نہیں،

ججز نہ تو سرکاری ملازم ہیں اور نہ ہی سرکاری وفا دار۔میڈیا رپورٹس کے مطابق معروف وکلا عمر گیلانی ایڈووکیٹ اور عادل چٹھہ ایڈووکیٹ سے کی جانے والی ویڈیو گفتگو میں جسٹس (ر)جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ اب تک جو اطلاعات منظرِ عام پر آئی اور اخبارات میں چھپی ہیں ان کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس غیر شفاف طریقے سے دائر اور غیر شفاف انداز میں اسے پیش کیا گیا، سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس موجودہ ریفرنس سے پہلے تقریباً 300 ریفرنس درج ہیں،آخرکیا وجہ ہے کہ ایک ریفرنس جو ابھی دائر ہوا ہے، اْسے اس ماہ کی 14 تاریخ کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے جبکہ اس سے پہلے دائر ہونے والے ریفرنسز کی کسی کو کوئی خبر نہیں؟میری رائے میں صرف یہ ایک عمل سپریم جوڈیشل کونسل کی کارکردگی کو مشکوک بنانے کیلئے کافی ہے،میں نے جنوری 2019 میں سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے جانے والے اپنے خط میں کونسل کو باور کرایا تھا کہ عدلیہ کا احتساب مستحسن قدم مگر اسے غیر شفاف طریقے سے نہیں ہونا چاہیے ورنہ پورے ملک میں تشویش پھیلے گی،اگر سپریم جوڈیشل کونسل بغیر کسی ترتیب کے ریفرنس کی سماعت کرتی ہے تو ایسے طرزِ عمل سے اس ادارے کی ساکھ مجروح ہو گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بار کونسل نے تقریبا دو سال قبل سپریم جوڈیشل کونسل سے باضابطہ طور پر ریفرنس کی ڈائری، اس کی سماعت اور ان کے فیصلوں کے حوالے سے تفصیلات مانگیں تھیں مگر سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ معلومات دینے سے انکار کر دیا تھا، اس لیے آج بھی کسی کو حتمی طور پر یہ معلوم نہیں کہ

اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں کتنے ریفرنس زیر التوا اور کتنے ریفرنس ہیں جن کے فیصلے ہو چکے ہیں، اب ظاہر ہے کہ ایسے احتسابی عمل کو شفاف کیسے کہاجا سکتا ہے؟۔جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کا ججز کے ضابطہ اخلاق کے بارے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ ضابطے کے آرٹیکل 2 کے مطابق جج کو خدا ترس اور صاف گو،حرص اور لالچ سے پاک ہونا چاہیے، جج کو کسی بھی پبلک فورم پر اپنی خود نمائی کے لیے تقریروں سے پرہیز کرنا چاہیے اور

خاص طور پر متنازعہ امور پر عدالت سے باہر بیان بازی نہیں کرنی چاہیے،یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پچھلے دو سالوں میں اس ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہوئی مگر سپریم جوڈیشل کونسل اس مسئلے پر خاموش رہی،میری رائے میں عدالتی کارروائی کو انگریزی میں چلانا بھی آئین کے آرٹیکل 251 کی صریح خلاف ورزی ہے،اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ موجود ہے،اس کی خلاف ورزی بھی حلف شکنی اور مس کنڈیکٹ کے زمرے میں آتی ہے،

اس طرف کسی کی توجہ نہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سرکار سے پلاٹ یا دیگر مراعات وصول کرنا ججز کا استحقاق نہیں ہے، نہ تو ججز سرکاری ملازم ہیں اور نہ ہی سرکاری وفا دار،ان کا سرکار سے پلاٹ تحفتاً یا کوڑیوں کے دام وصول کرنا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، بہت سے جج صاحبان ایسے ہیں جنھوں نے اپنے عہدے کی بنا پر پلاٹ حاصل کیے،سپریم جوڈیشل کونسل کو اس معاملہ کا نوٹس لینا چاہیے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



حکمت کی واپسی


بیسویں صدی تک گھوڑے قوموں‘ معاشروں اور قبیلوں…

سٹوری آف لائف

یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…