خوشی

3  ‬‮نومبر‬‮  2016

جاوید چودھری
یہ ٹیورن کی آخری رات تھی‘ ہماری کلاس کا اجتماعی ڈنر تھا‘ 35 طالب علم‘ طالبات اور اساتذہ اپنے بہترین سوٹ پہن کر‘ خوشبو لگا کر اور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر دریائے پو کے کنارے پہنچ گئے‘ یہ شاندار اطالوی ریستوران تھا‘ ریستوران کا صحن دریا کے پانی تک چلا جاتا تھا‘ لان میں کرسیاں اور میزیں لگی تھیں‘ پانی میں روشنیوں کے عکس ڈول رہے تھے‘ تمام شرکاء خوش تھے‘ قہقہے لگا رہے تھے‘ جوک شیئر کر رہے تھے اور لائیو میوزک چل رہا تھا‘ اساتذہ طالب علموں میں مکس اپ ہو گئے تھے اور اس وقت تمام لوگ اس ماحول کا حصہ دکھائی دے رہے تھے‘ ایک خوبصورت منظر کی بولتی‘ چیختی‘ مسکراتی اور چمکتی تصویر کی طرح لیکن میں ایک کونے میں خاموش کھڑا تھا‘ میں کبھی دریا کی طرف دیکھتا تھا‘ دریا میں روشنی کے ڈولتے عکس گننا شروع کر دیتا تھا‘ ریستوران کے صحن کے بلند قامت درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ سننا شروع کردیتا تھا اور کبھی لوگوں کے قہقہوں کا شرعی جواز تلاش کرنے لگتا تھا‘ میں نے یہ شام اسی کیفیت میں گزار دی‘ اس دوران لوگوں نے قہقہے بھی لگائے‘ ڈنر بھی کیا‘ گانے بھی گائے‘ ڈانس بھی کیا اور آخر میں ایک دوسرے کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا لیکن میری کیفیت تبدیل نہیں ہوئی‘ میرے ٹیچرز‘ میرے کولیگس ایک ایک کر کے میرے پاس آئے‘ انہوں نے میرے ساتھ گپ شپ کی کوشش کی‘ یہ میرا دل بہلاتے رہے‘ ان لوگوں نے مجھ سے اس اداسی‘ تنہائی اور خاموشی کی وجہ بھی پوچھی لیکن میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ میری اداسی اور خاموشی کی کوئی وجہ تھی بھی نہیں‘ مجھے دراصل خوش ہونا ہی نہیں آتا‘ مجھے خوش ہونے کی کسی نے ٹریننگ ہی نہیں دی تھی‘ ہم لوگ پیدا ہوتے ہیں اور اس کے بعد دکھوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے‘ میں زندگی کے وسط میں پہنچ کر ان دکھوں کا نفسیاتی تجزیہ کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے یہ کوئی حیران کن‘ غیر معمولی اور انوکھے دکھ نہیں ہیں‘ دنیا کا ہر شخص‘ ہر خاندان اور ہر معاشرہ غربت سے امارت‘ پسماندگی سے خوشحالی اور کمزوری سے طاقت کا سفر طے کرتا ہے‘ دنیا کے تمام لوگوں کو بچپن سے جوانی تک پڑھنا بھی پڑتا ہے اور دنیا کے تمام لوگ عملی زندگی میں

مشکلات کا سامنا بھی کرتے ہیں‘ انسان کو کیریئر کی بلندی تک کا سفر عموماً گھٹنوں‘ ہتھیلیوں اور ناخون کے بل پر طے کرنا پڑتا ہے‘ انسان جب آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے کیڑے کی طرح ’’ کرالنگ‘‘ کرنا پڑتی ہے اور ہم لوگ بھی دنیا کے دوسرے لوگوں کی طرح اس عمل سے گزرتے ہیں لیکن ہم اس ’’ سٹرگل‘‘ کے دوران خوشی کا قیمتی ترین عنصر کھو بیٹھتے ہیں‘ ہم خوش ہونا‘ مسرت کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرنا اور ایک ایسا بھرپور قہقہہ لگانا جس کی دھمک جسم کے تمام خلیوں میں اترتی ہوئی دکھائی دے ہم یہ خوبی کھو بیٹھتے ہیں‘ ہم روبوٹ بن جاتے ہیں یا پھر الہ دین کا جن بن جاتے ہیں جو ایک حکم کی تعمیل کے بعد دوسرے حکم کیلئے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

میں نے اس سفر کے دوران دو نئی چیزیں سیکھیں‘ ایک ہمارے معاشرے سے خوشی ختم ہو رہی ہے اور ہم لوگ اس خوشی کو ’’ پروٹیکٹ‘‘ کرنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے‘ ہم اپنے بچوں کو خوش رہنے کی ٹریننگ نہیں دے رہے اور دوسرا ہم لوگ چھٹی اور چھٹیاں نہیں گزارتے‘ ہم چھٹی کے وجود تک سے واقف نہیں ہیں‘ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے ہم خوش کیسے رہ سکتے ہیں اور اپنے بچوں کو خوشی کی ٹریننگ کیسے دے سکتے ہیں‘ اس کیلئے سب سے زیادہ ضروری زندگی کی حقیقتوں کا ادراک ہے‘ انسان اس وقت تک خوش ہونے کا آرٹ نہیں سیکھ سکتا جب تک وہ زندگی کے دکھوں کا وجود تسلیم نہیں کرتا‘ ہمیں ماننا پڑے گا جب تک سانس میں سانس ہے اس وقت تک ہماری زندگی میں تکلیفیں‘ دکھ‘ پریشانیاں‘ عذاب‘ آفتیں اور چیلنجز آتے رہیں گے‘ ہماری سٹرگل اس وقت تک جاری رہے گی‘ دکھ اور تکلیفیں اتنی بڑی حقیقت ہیں کہ دنیا کا کوئی نبی‘ کوئی پیغمبر تک ان سے نہیں بچ سکا تھا‘ انہیں بھی ہجرت‘ غربت‘ یتیمی‘ ظلم اور نفرت کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ یہ بھی آرے سے کاٹے گئے تھے‘ مچھلی کے پیٹ میں رہے تھے‘ مصر کے بازار میں بکے تھے‘ ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر انہوں نے بھی زم زم تلاش کیا تھا‘ انہوں نے بھی بھوک اور جلاوطنی کاٹی تھی اور ان کے خاندانوں نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا‘ یہ لوگ بھی زندگی میں کبھی نہ کبھی مقروض ہوئے تھے‘ انہوں نے بھی فاقے کاٹے تھے اور ان کی ذات پر بھی بے شمار الزام لگے تھے چنانچہ دکھ حقیقت ہیں‘ حقیقت

رہیں گے اور دنیا کا کوئی انسان ان سے نہیں بچ سکے گا لیکن ہم لوگ انہیں تسلیم کرنے‘ ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان سے بچنے اور ان کا شکوہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ سورج جتنی بڑی حقیقت ہے کہ دنیا میں شکوہ کرنے والا کوئی شخص خوش نہیں رہ سکتا‘ ہم لوگ اپنے مصائب‘ اپنی تکلیفوں اور اپنے چیلنجز کو بدقسمتی سمجھنے لگتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں اگر یہ چیزیں بدقسمتی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں پر چیلنجز‘ تکلیفیں اور مصیبتیں کیوں اتاری تھیں‘ کیا نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین ہستیاں بدقسمت یا بدنصیب تھیں؟ یقیناً نہیں تھیں‘ یہ لوگ تو اللہ تعالیٰ کے ایسے محبوب بندے تھے کہ فرشتے ان کے قدموں میں اپنے پر بچھاتے تھے اور ان کے سروں پر اپنی ہتھیلیوں کا سایہ کرتے تھے لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کو دکھوں‘ تکلیفوں اور مصیبتوں میں کیوں گرفتار رکھا؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ مصیبتوں اور دکھوں کو بدنصیبی نہیں سمجھتا‘ اس کی نظر میں یہ کھلونے ہیں اور اللہ یہ کھلونے صرف اپنے پسندیدہ لوگوں کو دیتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے صرف تکلیفوں اور مصیبتوں میں گرفتار لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں چنانچہ ہمیں نہ صرف ان تکلیفوں کا وجود تسلیم کرنا چاہیے بلکہ اپنے بچوں کو بھی ان دکھوں کے ساتھ زندگی گزارنے کا طریقہ سکھانا چاہیے‘ ہمیں اپنے آپ اور اپنے بچوں کو مسائل کے ساتھ خوش رہنے کی ٹریننگ دینی چاہیے چنانچہ جہاں مسکرانے کا موقع ملے وہاں کھل کر مسکرائیں‘ جہاں قہقہہ لگانے کا چانس ملے وہاں ایسا قہقہہ لگائیں جو آپ کے جسم کے تمام خلیوں کو متحرک کر دے‘ دوسروں کی خوشیوں کو اپنی خوشی سمجھ کر منائیں‘ جہاں چند لوگ خوش ہو رہے ہوں وہاں فوراً ان کی خوشی میں شامل ہو جائیں‘ ہنسنے والے لوگوں کے ساتھ ہنسیں‘ مسکرانے والوں کے ساتھ مسکرائیں‘ لوگوں کی کامیابیوں اور مسرتوں پر خوش ہونے کی کوشش کریں‘ لوگوں کو تحفے دیں اور لوگوں کے چھوٹے چھوٹے تحفوں پر خوشی کا اظہار کریں‘ معافی مانگنے اور شکریہ ادا کرنے میں کبھی تاخیر نہ کریں‘ میں پاکستان سے کورس کے ٹیچرز کیلئے چھوٹے چھوٹے تحفے لے کر گیا تھا‘ یہ معمولی سے ہینڈی کرافٹس تھے‘ میں نے جب یہ تحفے انہیں پیش کئے تو یہ لوگ بچوں کی طرح خوش

ہو گئے‘ انہوں نے یہ تحفے کھولے اور تمام شرکاء کو فرداً فرداً دکھائے اور اگلے دو دن تک مسلسل میرا شکریہ ادا کرتے رہے‘ اس چھوٹے سے عمل سے مجھے‘ ان لوگوں کو اور دیکھنے والوں کو خوشی ہوئی چنانچہ ہمیں اپنے بچوں کو تحفے دینے کی عادت ضرور ڈالنی چاہیے کیونکہ یہ سنت بھی ہے اور دنیا کی روایت بھی۔

ہم لوگ چھٹی کی حقیقت کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں‘ چھٹی اتنی بڑی حقیقت ہے کہ یہ دنیا کے تمام مذاہب میں موجود ہے‘ قدرت نے بھی کائنات کی تشکیل کے دوران چھ دن کام کیا تھا اور ساتویں دن چھٹی منائی تھی‘ یورپ‘ امریکا اور مشرق بعید کے لوگ ہفتے میں دو جبکہ سال میں پندرہ سے لے کر ایک ماہ تک یک مشت چھٹیاں مناتے ہیں‘ ہفتے کے دو دنوں کے دوران یہ لوگ اپنے خاوند یا بیوی اور بچوں کے ساتھ ریستوران میں کھانا کھاتے ہیں‘ اپنی اپنی روایات کے مطابق کلبوں میں ڈانس کرتے ہیں اور رات گئے واپس آتے ہیں‘ یہ لوگ ان دنوں اپنے دوستوں کو بھی اکٹھے ہونے اور کھانے کی دعوت دیتے ہیں‘ اتوار کا دن یہ لوگ مکمل طور پر گھروں میں گزارتے ہیں‘ تاخیر سے جاگتے ہیں‘ دھوپ میں لیٹتے ہیں‘ بچوں کے ساتھ گپ لگاتے ہیں‘ کتوں اور بلیوں کو نہلاتے ہیں اور گھر پر ڈنر کرتے ہیں‘ سالانہ چھٹیوں کے دوران یہ لوگ دوسرے شہر یا دوسرے ملک چلے جاتے ہیں‘ یہ لوگ کسی نہ کسی ساحل کا رخ کرتے ہیں‘ یہ جسم پر کریمیں ملتے ہیں اور ساحل کی ریت پر دھوپ میں لیٹ جاتے ہیں‘ یہ لوگ پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں‘ وہاں ٹریکنگ اور کیمپنگ کرتے ہیں‘ عجائب گھروں اور پارکوں کا رخ کرتے ہیں اور کشتی رانی اور فشنگ کرتے ہیں‘ یہ لوگ یہ دن ٹینشن فری ہو کر گزارتے ہیں‘ ہفتے کے دو دن اور سالانہ چھٹیوں کے دوران ٹیلی فون بند رہتے ہیں اور کوئی شخص کسی شخص کو ڈسٹرب نہیں کرتا‘ میں نے یورپ میں کبھی لوگوں کے موبائل فون بجتے نہیں سنے‘ لوگ بلاوجہ کسی کو فون بھی نہیں کرتے اور زیادہ تر لوگ اپنے موبائلوں کی گھنٹیاں بھی بند رکھتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں ہم لوگ جبری مشقت کا شکار ہیں‘ ہم لوگ چھٹی کے تصور تک سے واقف نہیں ہیں‘ ہم لوگ اتوار کے دن عام دنوں سے زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں‘ ہم ہفتہ بھر کام بچاتے رہتے ہیں اور اتوار کے دن اپنے بچے ہوئے کاموں کی تکمیل میں جت جاتے ہیں‘ ہم گھر کے کاموں کیلئے بھی اتوار کے دن کا انتخاب کرتے ہیں اور ہمارے تمام ناپسندیدہ مہمان بھی عموماً اتوار کے دن ہمارے پاس آ دھمکتے ہیں چنانچہ آپ کبھی غور

کیجئے پاکستان میں پیر کے دن دفتروں میں حاضری کم ہوتی ہے اور جو لوگ کام پر موجود ہوتے ہیں وہ بری طرح تھکے اور چڑچڑے ہوتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ملکوں میں سوموار کے دن حاضری سو فیصد ہوتی ہے اور لوگوں کے کام کی سپیڈ بھی تیز ہوتی ہے‘ ہم لوگ سالانہ چھٹیوں کے تصور سے بھی ’’ پاک‘‘ ہیں‘ ہم لوگ یہ چھٹیاں لیتے بھی ہیں تو انہیں گھریلو جھگڑوں میں ضائع کر دیتے ہیں لہٰذا ہماری زندگی المیوں کا شکار ہو کر رہ گئی ہے‘ میں پیرس میں دو دن رک کر ٹیورن گیا تھا واپسی پر بھی میں اب پیرس میں ہوں‘ فرانس کا سمندر پیرس سے دور ہے چنانچہ یہاں ساحل یا بیچ نہیں ہے لیکن حکومت ہر سال 20 جولائی سے لے کر 20 اگست تک پیرس کے ان لوگوں کیلئے جو کسی مجبور کی وجہ سے چھٹیاں گزارنے کیلئے شہر سے باہر نہیں جا سکتے ہیں ان لوگوں کیلئے دریائے سین کے کناروں کو مصنوعی ساحل کی شکل دے دیتی ہے‘ دریا کے کنارے ہزاروں ٹن ریت بچھا دی جاتی ہے‘ عارضی ٹوائلٹس بنا دیئے جاتے ہیں‘ شاور لگا دیئے جاتے ہیں اور ایک ماہ کیلئے ریستوران اور شاپنگ کیلئے چھوٹی چھوٹی دکانیں بنا دی جاتی ہیں چنانچہ وہ لوگ جو شہر سے باہر نہیں جا سکتے وہ اس مفت سہولت سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں‘ ہمیں بھی خود چھٹیاں گزارنے اور اپنے بچوں کو چھٹیوں کی اہمیت کی ٹریننگ دینی چاہیے‘ حکومت کو بھی انسان کی اس بنیادی ضرورت کا ادراک کرنا چاہیے کیونکہ وہ لوگ جنہیں ہم کافر سمجھتے ہیں وہ انسانیت اور انسانی رویوں میں ہم سے زیادہ مسلمان ثابت ہو رہے ہیں اور یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…