ایف بی آر نے ٹیکس چوری کے مزید کیسز بے نقاب کردئیے ،صرف 3 کیسز میں کتنا ٹیکس ٹیکس چوری کیا گیا؟اہم انکشاف سامنے آگیا

25  جنوری‬‮  2020

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن (ڈی جی، آئی اینڈ آئی) نے ایسے متعدد کیسز نے پردہ اٹھایا ہے جس میں ٹیکس سے بچنے کے لیے رقم کی منتقلی دور دراز علاقوں میں کی گئی۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ صرف 3 کیسز میں اربوں روپے کا ٹیکس چوری کیا گیا جو منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ حکومت نے ان اکاؤنٹس کے ماخذ کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس میں متعلقہ قوانین کے تحت (ملوث) رقوم پر ٹیکس لگاکر اسے منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔انہوں نے کہاکہ ان کیسز کو انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 اور بے نامی ایکٹ 2017 کے تحت نمٹا جائیگا، انہوں نے کہا کہ ٹیکس چوری کے حیرت انگیز طریقے سامنے آرہے ہیں، تاہم حکومت معیشت کو دستاویزی کرنے کے لیے پْرعزم ہے اس لیے ہر ایک کو ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔اس حوالے سے دیکھے گئے سرکاری دستاویزات کے مطابق ڈی جی آئی اینڈ آئی کے حیدرآباد چیپٹر نے کسٹم، ٹیکسیشن اور اینٹی اسمگلنگ کراچی کے خصوصی جج کی عدالت میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کے تحت 3 شکایات دائر کی ہیں۔یہ شکایات 3 افراد حکمت اللہ، عبدالنافع اور حیات اللہ کے خلاف تفتیش کے بعد دائر کی گئیں۔اس ضمن میں ذرائع نے بتایا کہ ان افراد کے اکاؤنٹس میں موصول ہونے والی رقم ان کے ٹیکس ڈیکلریشن میں ظاہر کردہ رقم سے کہیں زیادہ ہے۔

تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ سال 2014 سے 2018 کے درمیان حکمت اللہ جو رپورٹس کے مطابق ایک اسکریپ ڈیلر ہیں، ان کے متعدد بینک اکاؤٹس تھے۔حکمت اللہ نے 15 لاکھ 70 ہزار روپے کی وصولیاں ظاہر کیں اور کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا لیکن ان کے بینک میں 10 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم موجود تھی۔ایف بی آر کے مطابق حکمت اللہ نے اپنی حقیقی آمدن/ کاروبار/ ریونیو کو اپنی آمدن پر لاگو ٹیکس سے بچنے کے لیے حکومت سے چھپایا۔

اگرچہ ان کی واحد ملکیت کاروبار ہے تاہم وہ اپنے بینک اکاؤنٹس میں اعلیٰ سطح کی مالیاتی سرگرمیوں میں ملوث تھے جبکہ مذکورہ کیس میں تقریباً 5 ارب 64 کروڑ روپے کا ٹیکس چوری کیا گیا۔دوسرے کیس میں عبدالنافع کی بھی واحد ملکیت کاروبار ہے، جہاں انہوں نے 2014 سے 2018 کے درمیان 33 لاکھ 90 ہزار روپے کی وصولی ظاہر کیں اور کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا تاہم ان کے بینک میں 6 ارب 61 کروڑ روپے کی رقم موجود تھی۔دستاویز کے مطابق عبدالنافع چاول اور خشک میوہ جات کی ہول سیل کا کاروبار کرتے اور کاروبار میں رقوم کی منتقلی کیلئے مختلف بینکوں میں کئی بینک اکاؤنٹس ہیں جبکہ ایک اندازے کے مطابق اس کیس میں تقریباً 3 ارب 60 کروڑ روپے کا ٹیکس چوری کیا گیا۔

اس کے علاوہ چاول اور خشک میوہ جات کا ہول سیل کاروبار کرنے والے ایک اور شخص حیات اللہ کے بھی کاروبار کے حوالے سے رقوم کی منتقلی کیلئے مختلف بینکوں میں متعدد اکاؤنٹس ہیں۔حیات اللہ نے سال 2014 سے 2018 تک 14 لاکھ 50 ہزار روپے کی وصولیاں ظاہر کیں اور انکم ٹیکس کی مد میں صرف 51 ہزا روپے ادا کیے تاہم ان کے بینک اکاؤنٹس میں تقریباً یک ارب 96 کروڑ روپے کی رقم موجود تھی۔

ایف بی آر نے حیات اللہ کی کیس میں ایک ارب روپے کی ٹیکس چوری کا تخمینہ لگایا ہے۔دستاویز کے مطابق فیصل آباد، ملتان، پشاور اور اسلام آباد میں آئی اینڈ آئی کے ریجنل ڈائریکٹوریٹس نے بھی مختلف سیکٹرز میں دھوکہ دہندگان کی املاک پر چھاپے مارے۔ٹیکس حکام کے مطابق ان تمام کیسز میں کارروائی جاری ہے، آئی اینڈ آئی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بشیراللہ خان نے ٹیمز کو ہدایت کی کہ جتنی جلد ممکن ہو تحقیقات مکمل کی جائیں۔

موضوعات:



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…