ٹرمپ سے ملاقات کے بعد صورتحال کلیئر، اب افغان طالبان کے ساتھ کیا ہوگا؟وزیراعظم عمران خان نے بڑا اعلان کردیا

23  جولائی  2019

واشنگٹن (این این آئی)وزیراعظم عمران خان نے وطن واپس پہنچ کر افغان طالبان سے ملاقات کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد صورتحال کلیئر ہوگئی، اب افغان طالبان سے ملوں گا، افغانستان میں پائیدار امن کا تعلق جمہوریت کے استحکام سے وابستہ ہے،طالبان کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہیے، افغان طالبان اور امریکا کیساتھ مذاکرات کررہے ہیں، بہت جلد امن معاہدہ کاامکان ہے،

امریکا سپر پاور ہے آپ چاہیں یا نہ چاہیں امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے پڑتے ہیں، امریکا کے ساتھ ایسے تعلقات نہیں چاہتے جیسے ماضی میں صرف امداد کیلئے تھے، برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں،ملک میں سیاسی جماعتوں سے نہیں، مافیا سے نبرد آزما ہوں،پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے،سابق حکومت ایک مذہبی گروپ کے دباؤ کی وجہ سے توہین مذہب کی ملزمہ آسیہ بی بی کا مقدمہ چلانے پر آمادہ نہیں ہوئی، کرپشن کی وجہ سے دہشت گردی کے مقابلے میں زیادہ اموات ہو رہی ہیں،منی لانڈرنگ کی وجہ سے بھوک افلاس کا گراف بڑھ رہا ہے اور لوگ مر رہے ہیں،کرپٹ سیاستدان ریاستی اداروں کو تباہ کرتے ہیں، اگر مذکورہ ادارے مضبوط ہوں گے تو منی لانڈرنگ کے امکانات نہیں ہوں گے،پہلی بار پاکستانی حکومت، فوج اور امریکی حکام ایک پیج پر ہیں، جمہوری حکومت اورفوج کی پالیسیوں میں کوئی اختلاف نہیں،پاکستان خطے میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے، مسئلہ کشمیر کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات مشکل ترین مرحلے میں ہیں، بھارت اور پاکستان کے مابین تجارت کے آغاز سے غربت پر قابو پایا جا سکتا ہے،بھارت بات چیت کیلئے ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دو قدم آگے بڑھائیں گے۔ منگل کو یہاں امریکی تھنک ٹینک سے خطاب اور سوالات کے جوابات دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ میری طالبان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی تاہم اب امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سے رابطے کے بعد طالبان سے ملاقات کرکے انہیں مذاکرات کیلئے آمادہ کروں گا۔

عمران خان نے کہا کہ میری طالبان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اب امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سے رابطے کے بعد طالبان سے ملاقات کرکے انہیں مذاکرات کے لیے آمادہ کروں گا۔وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن کا تعلق جمہوریت کے استحکام سے وابستہ ہے۔انہوں نے کہاکہ وہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کیلئے آمادہ کریں گے اور طالبان کو بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ملنی چاہیے۔

اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے۔انہوں نے کہاکہ سابق حکومت ایک مذہبی گروپ کے دباؤ کی وجہ سے توہین مذہب کی ملزمہ آسیہ بی بی کا مقدمہ چلانے پر آمادہ نہیں ہوئی، حکومت مذکورہ گروپ کے ہاتھوں یرغمال ہو چکی تھی۔انہوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آسیہ بی بی کے حق میں آیا تو اسی مذہبی گروپ نے ریاست کو دو دن تک یرغمال بنائے رکھا لیکن حکومت نے عدالتی فیصلے کا احترام اور اقلیتی خاتون کا استحقاق مجروع نہیں ہونے دیا

اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے مذہب اور آئین میں اقلیتوں کو دیگر شہریوں کی طرح یکساں حقوق حاصل ہیں۔عمران خان نے میڈیا سے متعلق سوال پر کہا کہ میں برطانوی میڈیا کے ماحول سے اچھی طرح واقف ہیں اور پورے یقین سے کہتا ہوں کہ ہمارا میڈیا برطانوی میڈیا سے زیادہ آزاد ہے۔انہوں نے کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے لیکن ساتھ ہی کنٹرول سے باہر ہوجاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ امریکا میں بھی میڈیا کو اتنی چھوٹ نہیں کہ وہ برسراقتدار حکومت کے وزیراعظم کی ذاتی زندگی کے بارے میں منفی رائے قائم کرے۔

وزیراعظم نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے دور میں صحافی غائب ہو جایا کرتے تھے، مسلم لیگ (ن) کے دور میں صحافیوں کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کو میڈیا کنٹرول نہیں کرنا چاہیے لیکن ایک ریگولیٹری اتھارٹی میڈیا کے معیارات کا جائزہ لے۔انہوں نے کہاکہ ملک ایک طرف مالی خسارے سے دوچار ہے اور اس پر میڈیا آئی ایم ایف کا حوالہ دے کر روپے کی قدر میں کمی سے متعلق غلط خبریں چلارہا ہے، ایسا کہاں ہوتا ہے؟عمران خان نے کہا کہ یہ سینسر شپ نہیں ہے لیکن ہم نگراں اداروں کو مضبوط بنائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارے والدین نو آبادیاتی نظام کے دورمیں پیدا ہوئے تھے، میں آزاد پاکستان میں پیدا ہونے والی نسل سے ہوں۔انہوں نے کہا کہ میرے والدین نے ہمیشہ یاد دہانی کروائی کی کہ نوآبادیاتی نظام میں رہنا کتنا مشکل تھا جہاں آپ ایک آزاد ملک میں نہیں رہتے تھے۔وزیراعظم نے کہا کہ یہ بہت فخر کی بات تھی جب پاکستان نے 60 کی دہائی کی میں تیزی سے ترقی کی، اس وقت پاکستان کی معیشت خطے میں تیز ترین تھی۔عمران خان نے کہا کہ پاکستان کی ترقی سے ہمیں امید ملی کہ اس ملک کی ایک منزل ہے لیکن 70 کی دہائی کے بعد پاکستان کے حالات خراب ہونا شروع ہوگئے۔

انہوں نے کہاکہ میں نے 2 دہائیوں تک بین الاقوامی کرکٹ کھیلی جسے 90 کی دہائی کے آغاز میں خیر باد کہا اس کے بعد میرا مقصد فلاحی کام تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعدکینسر ہسپتال بنایا، کینسر کے باعث میری والدہ انتقال کرگئی تھیں، میں نے محسوس کیا کہ ملک میں کینسر کا کوئی ہسپتال نہیں،ہسپتال بنایا تاکہ غریبوں کو علاج کی سہولت حاصل ہوسکے۔عمران خان نے کہا کہ میں نے 6 سے 7 سال ہسپتال چلانے میں گزارے،اس دوران مجھے احساس ہوا کہ ایک بڑے ملک میں سوشل ورک سے تبدیلی نہیں آسکتی یہ صرف سیاست سے آسکتی۔وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں تبدلی کے لیے مجھے سیاست میں آنا پڑا،

میں نے سیاسی جدوجہد کے 15 برس کرپشن کے بارے میں بات کی لیکن لوگوں کو سمجھ نہیں آیا، پھر بتدریج انہیں میری باتوں کی سمجھ آئی اور 2013 کے انتخابات کے بعد کامیابی کے امکانات روشن ہوئے۔انہوں نے کہاکہ 15 برس میں محض چند نوجوان میری پارٹی میں شریک ہوئے اور آہستہ آہستہ لوگوں کو میری پارٹی کا منشور سمجھنے میں آنے لگا۔وزیراعظم نے کہا کہ جب تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار آئی تب ایک بڑا چیلنج یہ تھا کہ تمام مالیاتی ادارے خسارے سے دوچار تھے۔انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں اور اشرافیہ طبقے نے منی لانڈرنگ کے ذریعے آف شور اکاؤٹنس اور مغربی ممالک میں سرمایہ کاری کی۔عمران خان نے کہا کہ

کرپشن کی وجہ سے دہشت گردی کے مقابلے میں زیادہ اموات ہو رہی ہیں کیونکہ منی لانڈرنگ کی وجہ سے بھوک افلاس کا گراف بڑھ رہا ہے اور لوگ مر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کرپٹ سیاستدان ریاستی اداروں کو تباہ کرتے ہیں، اگر مذکورہ ادارے مضبوط ہوں گے تو منی لانڈرنگ کے امکانات نہیں ہوں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ لوٹی ہوئی دولت تو واپس لی جاسکتی ہے لیکن تباہ شدہ اداروں کو دوبارہ کھڑا کرنا انتہائی مشکل ہے۔عمران خان نے کہا کہ میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں لڑرہا بلکہ ایک مافیا کے ساتھ لڑ رہا ہوں۔وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اقتدار میں آنے کے لیے 23 سال جدوجہد کی، سپریم کورٹ کی فتح اس وقت ہوئی جب وزیراعظم کو نااہل قرار دیا۔

انہوں نے کہاکہ میں مافیا اس لیے کہتا ہوں کیونکہ 2 جماعتوں نے 30 سال تک حکومت کی ہم اس لیے جیتے کہ ہم نے نوجوانوں کو متحرک کیا۔انہوکں نے کہاکہ ان کارویہ سیاسی جماعت کی طرح نہیں، اس لیے میں انہیں مافیا کہتا ہوں، اپوزیشن ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں لگی ہے، کرمنل مافیا کے خلاف ملک بھر میں آپریشن کر رہے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کرمنل مافیا سے رقم وصول کر ر ہے ہیں، پاکستان میں انتہائی کم لوگ ٹیکس دیتے ہیں، ٹیکس کے مخالف آج کل ہڑتال کر رہے ہیں، ہم انہیں ٹیکس دینے پر قائل کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں اسے احتساب اور مخالفین اسے انتقامی کارروائی کہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پچھلی دو حکومتوں نے ریکارڈ قرضے حاصل کیے،

گزشتہ 10سالوں میں قرضہ 6ٹریلین سے 30ٹریلین پرپہنچ گیا اور اس کی تحقیقات کیلئے کمیشن بھی بنایا ہے، جب ہم احتساب کی بات کرتے ہیں تو یہ دونوں پارٹی کہتی ہیں سیاسی انتقام لیا جارہا ہے۔عمران خان نے کہا کہ پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات ہماری ترجیح ہے کیونکہ اقتصادی ترقی کیلئے ہمیں امن کی ضرورت ہے جس کے لیے پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات ہونا ضروری ہیں۔پڑوسی ممالک کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے، مسئلہ کشمیر کی وجہ سے پاک بھارت تعلقات مشکل ترین مرحلے میں ہیں۔انہوں نے کہاکہ سب سے پہلے بھارت سے تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں، بھارت سے تعلقات کی راہ میں مسئلہ کشمیر رکاوٹ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ جب بھی کوشش کی گئی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جب دونوں ممالک دوبارہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ حکومت میں آتے ہی بھارت کی طرف ہاتھ بڑھایا، میں نے بھارتی وزیراعظم کو تعاون کی پیشکش کی تھی۔عمران خان نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے مابین تجارت کے آغاز سے غربت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح ایران کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات تھے ایران تنازع کے فریق ممالک کومعاملے کی سنگینی کاادراک ہوناچاہیے۔وزیراعظم نے کہاکہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلق کافی مشکلات کا شکار تھے، میں نے افغان صدر اشرف غنی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی تھی۔عمران خان نے کہا کہ ہم تعلقات میں آگے بڑھ رہے ہیں،

اب امریکا اور پاکستان اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان کا مسئلے کا حل عسکری نہیں اس لیے ہم امن عمل کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امریکا سپر پاور ہے آپ چاہیں یا نہ چاہیں امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے پڑتے ہیں، جب صدر ٹرمپ نے مجھے ملاقات کی دعوت دی تھی تو میں تھوڑا پریشان تھا۔انہوں نے کہاکہ امریکی صدر نے ہمارے دل جیت لیے، ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح سے خیرمقدم کیاوہ ہمارے لیے انتہائی خوشگوار تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہمارے درمیان قریبی تعلقات ہوں گے اور کس طرح ہم روابط کے خلا میں کمی کو یقینی بنائیں گے۔عمران خان نے کہا کہ 2003 یا 2004 سے لے کر 2015 تک پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا بدترین دور تھا۔

انہوں نے کہاکہ نائن الیون کے حملوں میں کوئی بھی پاکستانی ملوث نہیں تھا لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دیں۔عمران خان نے کہا کہ ہم نے 70 ہزار جانوں کی قربانیاں دیں، ہماری معیشت کو 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوا لیکن اس کے باوجود بداعتمادی کی فضا قائم تھی۔وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان پر روسی حملے کے بعد امریکا اور پاکستان کا ساتھ رہا، افغان جنگ کے بعد امریکا نے ساتھ چھوڑ دیا، نائن الیون کا واقعہ ہوا تو میں نے جنگ میں شمولیت کی مخالفت کی۔وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کی مخالفت کی تھی، تورا بورا واقعے کے بعد عسکریت پسند قبائلی علاقوں میں روپوش ہوگئے، قبائلی علاقوں کے عوام کو جنگ کے نتیجے میں شدید مشکلات اٹھانی پڑیں،

ہمیں اس جنگ میں غیرمتعلق رہنا چاہیے تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان سمجھتا تھا کہ ہر ممکن کوشش کررہا تھا، پاکستان اس جنگ سے علیحدہ ہوسکتا تھا لیکن افغان جنگ میں کردار ادا کیا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ ہم سوچنے لگےعمران خان نے کہا کہ آئے دن خودکش بم دھماکے ہوتے تھے، سرمایہ کار تو کیا کوئی اسپورٹس ٹیم پاکستان نہیں آتی تھی۔انہوں نے کہاکہ اس دوران امریکا نے کہا ہم زیادہ کردار ادا نہیں کررہے ہم ڈبل گیم کھیل رہے ہیں میرے خیال میں وہ پاک – امریکا تعلقات کا بدترین وقت تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ میری طالبان سے پہلے ملاقات نہیں ہوئی لیکن اب امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات اور افغانستان کے صدر اشرف غنی سے رابطے کے بعد طالبان سے ملاقات کرکے انہیں مذاکرات کے لیے آمادہ کروں گا۔انہوں نے کہا کہ

ماضی میں امریکا کو پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان کے خدوخال کے بارے میں ناقص معلومات تھیں، میں نے ڈیموکریٹس کے اراکین سے ملاقات میں انہیں بتایا تھا کہ عسکری کارروائی کے ذریعے کابل سمیت دیگر شہروں میں امن نہیں لایا جاسکتا۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم مشترکہ طور پر کام کریں تو افغان امن عمل کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔انہوں ے کہا کہ اپوزیشن جماعت جج کو بلیک میل کرنے کیلئے وڈیو لے آئی، ایسا مافیا میں ہوتا ہے۔عمران خان نے کہا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں دونوں پارٹیوں کو شکست دینے میں مدد ملی، نواز شریف نے لندن میں مہنگے ترین فلیٹ خریدے، نواز شریف سے آمدنی کے ذرائع پوچھے تو وہ نہ بتا سکے، پاناما پیپرز آئے تو ایک طاقتور میڈیا نوازشریف کے دفاع میں سامنے آگیا۔عمران خان نے کہا کہ

گرفتار بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی کے میرے فیصلے کی پاک فوج نے بھی حمایت کی، ماضی میں میرے خیالات پر مجھے طالبان خان اور بغیر داڑھی کا دہشتگرد کہا گیا۔انہوں نے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) لیڈرشپ نے فوج پر حملے کیے جس پر پابندی لگانی پڑی، مسلح گروپوں کوملک میں پنپنے نہ دینا پاکستان کے مفادمیں ہے، ہر سیاسی جماعت نے نیشنل ایکشن پلان پر دستخط کیے ہیں، سیکیورٹی فورسزپشت پرنہ ہوں تو ہم انہیں غیرمسلح نہیں کرسکتے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فوج کی مدد سے ملک بھر میں مسلح گروپوں کو غیر مسلح کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایران کا مسئلہ عراق سے بھی بڑا مسئلہ بن سکتا ہے، لوگ امریکا اور ایران کے درمیان جنگ کی سنگینی کو نہیں سمجھتے، ایران اور امریکا کے درمیان جنگ دنیا اورپاکستان کیلئے تباہ کن ہو سکتی ہے۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…