توڑ دیں‘ گرا دیں

10  مئی‬‮  2022

ہنری ٹموتھی کونویل (Henry Toomithi Conville) زمین دار تھا‘ وہ 1880ء میں ہندوستان آیا اور پنجاب کے مختلف جاگیرداروں اور زمین داروں کو زرعی مشینری بیچنا شروع کر دی‘ وہ اس دور میں زرعی مشینری کا سب سے بڑا امپورٹر تھا‘ مشینیں یورپ سے کول کتہ‘ ممبئی اور کراچی لائی جاتی تھیں اور پھر ٹرینوں کے ذریعے پورے ملک میں پہنچا دی جاتی تھیں‘

وہ 1896ء میں ملتان میں رہائش پذیر تھا اور اللہ تعالیٰ نے اسے اولاد نرینہ سے نواز دیا‘ بچے کا نام لیوپولڈکونویل (Leopold Conville) رکھ دیا گیا‘ لیو پولڈ کونویل نے برطانیہ کے ڈلوچ (Dulwich) سکول اور پھر رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ سے تعلیم حاصل کی اور برطانوی فوج میں بھرتی ہو کر ہندوستان آ گیااور ترقی کرتا کرتا لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچ گیا‘وہ عرف عام میں کرنل کونویل کہلاتا تھا‘ یہ دونوں باپ بیٹا وائسرائے کے دوست بن گئے اور وائسرائے نے انہیں مونٹگمری (ساہیوال) میں 120 مربع زمین الاٹ کردی‘ یہ ننانوے سال کی لیز تھی‘ لیز مکمل ہونے کے بعد 60 مربع زمین کونویل فیملی کے نام منتقل ہو جانی تھی جب کہ باقی 60 مربعے واپس حکومت کے پاس آ جانی تھی‘ کونویل فیملی نے 8 فروری 1915ء کو اس زمین پر پنجاب کے سب سے بڑے زرعی فارم کی بنیاد رکھی‘ زمین کے درمیان تین گائوں آباد تھے‘ چیک 836‘ 837 اور 838‘ کونویل نے اپنی زمین کے درمیان سے نہر نکالی‘ سڑکیں بنوائیں‘ زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا اور جدید مشینری کے ذریعے اجناس اور پھل کاشت کرنے لگا اور اس نے ڈیری پراڈکٹس کے یونٹس بھی لگائے‘ فارم ہائوس پر دو اڑھائی ہزار لوگ کام کرتے تھے‘ کونویل فیملی نے ان لوگوں کو گھر بھی بنا کر دیے اور یہ لوگ انہیں تنخواہ کے ساتھ ساتھ خوراک‘ دودھ اور کپڑے جوتے بھی دیتے تھے‘ کرنل کونویل کا والد اور والدہ ساہیوال ہی میں فوت ہوئے‘ان کی قبریں آج بھی ساہیوال کے کوونینٹ چرچ کے ساتھ موجود ہیں‘ کرنل کونویل نے فارم ہائوس پر اپنے دو گھر بنائے‘ ایک سمر ہائوس تھا اور دوسرا ونٹر ہائوس‘ یہ لوگ سردیوں میں ونٹر ہائوس میں شفٹ ہو جاتے تھے‘ وہ گھر گرم بھی تھا اور اس کی چھت اور دیواروں میں بڑے شیشوں کی کھڑکیاں اور روشن دان تھے جب کہ سمر ہائوس گرمیوں کے لیے تھا‘وہ گھنے درختوں کے درمیان تھا اور کھلا اور ہوادار تھا‘فارم پر دس پندرہ ہزار گھنے اور بڑے درخت تھے‘ فیملی گرمیوں میں کشمیر چلی جاتی تھی‘ ان کا بڑا بیٹا ڈیوڈ ہنری کونویل 1929ء میں کشمیر میں ہی پیدا ہواتھا‘ ڈیوڈ نے تعلیم ہندوستان میں حاصل کی تھی۔

ساہیوال کا کونویل فارم پنجاب کا آئیڈیل فارم تھا‘ کرنل بادشاہ کی طرح اپنی ریاست میں رہتا تھا‘ وہ آتا تھا تو بگل بجایا جاتا تھا اور لوگ قطار میں کھڑے ہو کر اس کا استقبال کرتے تھے‘ لیڈی کونویل اور اس کے بچے فارم میں گھڑ سواری کرتے تھے‘ نہر میں نہاتے تھے اور فارم ہائوس کے تازہ پھل‘ سبزیاں اور گوشت کھاتے تھے‘ کرنل نے فارم ہائوس پر بھنگ کاشت کر کے افیون بھی بنانا شروع کر دی‘

وہ یہ افیون برطانیہ لے جا کر فارما سوٹیکل کمپنیوں کو فروخت کرتا تھا اور ہزاروں پائونڈز کماتا تھا‘ وہ اس دوران ایک بار فارم ہائوس جوئے میں بھی ہار گیا لیکن پھر ساہیوال کے ایک وکیل بیرسٹر رادھا کشن نے اسے فارم واپس لے دیا‘ یہ کیس قانون کی کتابوں تک میں لکھا گیا اور مدت تک اس کے حوالے بھی دیے جاتے رہے‘ یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن پھر 1947ء میں پاکستان بن گیا‘

انگریز واپس چلا گیا اور ملک مقامی انتظامیہ کے ہاتھ میں آگیا مگر کرنل کونویل نے فارم چھوڑنے سے انکار کر دیا‘ وہ 1971ء تک پاکستان میں رہا‘وہ سردیوں میں ساہیوال میں رہتا تھا اور گرمی زیادہ بڑھ جاتی تھی تو لندن چلا جاتا تھا‘ دو بیٹے تھے‘ ڈیوڈ اور مائیکل‘ یہ بھی پاکستان آتے اور جاتے رہتے تھے‘ ڈیوڈ نے تھیٹر اور فلم لائین جوائن کر لی اور برطانیہ کا مشہور ایکٹر بن گیا‘ وہ ریجنٹ پارک اوپن ائیر تھیٹر کا ڈائریکٹر بھی رہا جب کہ مائیکل نے گم نام زندگی گزاری‘ نواب آف کالاباغ

ملک امیر محمد خان کرنل کونویل سے بہت متاثر تھے‘ وہ اسے سپورٹ کرتے رہتے تھے‘ اس دوران کرنل کی زمینوں پر قبضے بھی شروع ہو گئے اور مقدمے بازیاں بھی‘ وہ مختلف عدالتوں میں لڑتا رہا لیکن پھر 1971ء میں بے بس ہو گیا اور زمینیں بیچنا شروع کر دیں‘ فارم ہائوس کا کچھ حصہ اونے پونے بک گیا لیکن سٹیٹ بینک آف پاکستان نے یہ رقم بھی برطانیہ بھجوانے کی اجازت نہ دی اور یوں اس نے اپنی بیگم کو ساتھ لیا‘ اپنے والد اور والدہ کی قبر پر آخری حاضری دی اور برطانیہ واپس چلا گیا‘

وہ انگلینڈ میں لندن سے 70کلومیٹر کے فاصلے پر اودھم (Odiham) میں شفٹ ہو گیا‘ یہ ہیمپشائر کا چھوٹا سا گائوں ہے‘ آبادی صرف ساڑھے چار ہزار ہے‘ کرنل کونویل 1979ء میں اودھم میں انتقال کر گیا اور اس کے رشتے داروں نے اسے لوکل قبرستان میں دفن کر دیا‘ ڈیوڈ ہنری کونویل بھی 2018ء میں 89سال کی عمر میں فوت ہو گیا اور یوں یہ فیملی ماضی کا قصہ بن گئی۔

میں عید کی چھٹیوں کے دوران کرنل لیوپولڈ کونویل‘ ساہیوال جیل میں فیض احمد فیض وارڈ‘ شورش کشمیری‘ خان عبدالقیوم خان‘ ولی خان اور ممتاز بھٹو کا جیل ریکارڈ دیکھنے اور ہڑپہ کے وزٹ کے لیے ساہیوال پہنچ گیا‘ کرنل کونویل کا فارم ہائوس ختم ہو چکا ہے‘ اس میں درجن بھر ہائوسنگ سکیمیں بن چکی ہیں‘ ایک دو کھیت بچے ہیں مگر ان پر بھی مقدمے بازی چل رہی ہے‘ نہر موجود ہے

لیکن اس کی دوسری طرف پکی سڑک بن چکی ہے اور اس پر دو دو‘ تین تین مرلے کے بے ہنگم سے پلازے آڑھے ترچھے ہو کر لیٹے ہیں‘ کرنل کونویل کا دفتر باقی ہے‘ یہ ایک سو سات سال پرانی عمارت ہے‘ اس میں اس کا بیڈروم بھی تھا اور آفس بھی جب کہ احاطے میں اناج اور زرعی آلات رکھے جاتے تھے‘دفتر کا 14فٹ بلند گیٹ تاحال موجود ہے تاہم اس کے ونٹر ہائوس میں سکول بن چکا ہے

اور سکول کی انتظامیہ نے عمارت کی خوب صورتی واہیات قسم کے رنگوں کے نیچے چھپا دی ہے جب کہ سمر ہائوس آخری سانسیں لے رہا ہے‘ چھت گر چکی ہے‘ فرش ٹوٹ گئے ہیں‘ برآمدہ جھک کر سجدے کی جگہ تلاش کر رہا ہے‘ باتھ ٹب کی کرچیاں فرشوں پر بکھری ہوئی ہیں تاہم ایک کموڈ حیرت سے دائیں بائیں دیکھتا رہتا ہے‘ عمارت کی بیرونی دیوار کے ساتھ چینی کا ایک سنگ ابھی تک موجود ہے‘

لوگوں نے یقینا اسے بھی توڑنے کی کوشش کی ہو گی لیکن یہ شاید ڈھیٹ ہے لہٰذا یہ ابھی تک دیوار کے ساتھ چپکا ہوا ہے‘ مقامی لوگ اس عمارت کو میم کی حویلی کہتے ہیں لیکن حویلی بھی موجود نہیں اور میم بھی‘ عمارت کی پچھلی سائیڈ پر ٹیرس ہے‘ اس کے سامنے مالٹوں کا باغ تھا‘ باغ آج بھی ہے لیکن ٹیرس تقریباً مٹی ہو چکا ہے اور سمر ہائوس کی دیواریں شکستہ ہیں اور کھڑکیاں وقت کی نذر ہو چکی ہیں‘

میں بڑی دیر تک افسردگی کے عالم میں وہاں کھڑا رہا اور یہ سوچتا تھا آج اگر کرنل کونویل یہاں آ جائے تو کیا وہ یہ سب کچھ دیکھ سکے گا؟ وہ یقینا خودکشی کر لے گا‘میں وہاں سے کرنل کے متروک آفس میں چلا گیا‘ یہ آج کل کرنل کے منشی شاہ محمد کے پوتے صبار کی ملکیت ہے‘ یہ درددل رکھنے والے سمجھ دار انسان تھے‘ انہوں نے بتایا ہم نے کرنل کونویل کی تمام اشیائ‘ پینٹنگز اور تصاویر اکٹھی

کر کے ان کے خاندان کو لندن بھجوا دی تھیں تاہم ان کے پاس کونویل فیملی کی چند تصاویر موجود تھیں‘ میری درخواست پر انہوں نے یہ تصاویر مجھے دکھا دیں‘ فارم تصویروں میں برطانیہ کی کوئی قدیم ریاست دکھائی دیتا تھا اور کونویل فیملی شاہی خاندان‘ وہ تصویریں‘ وہ آفس اور وہ سمر ہائوس دیکھنے کے بعد سوال پیدا ہو رہا تھا کون کون لوگ‘ کہاں کہاں سے آ کر‘ کہاں کہاں آباد ہوئے اور پھر کہاں نکل گئے؟۔زندگی کے لیے اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے؟

ساہیوال میں اویس ملک ڈپٹی کمشنر ہیں‘ میری ان سے ملاقات نہیں ہو سکی لیکن لوگ ان کی بہت تعریف کرتے ہیں‘ یہ پڑھے لکھے بھی ہیں اور شاعر بھی ہیں لہٰذا میری ان سے درخواست ہے یہ کرنل کونویل کے گھر اور دفتر کا وزٹ کریں اور اس کے گھر کی تزئین وآرائش کر کے اسے میوزیم یا ریسٹ ہائوس بنا دیں اور صبار صاحب سے کونویل فیملی کی تصاویر لے کر انہیں اس گھر میں لگا دیں تاکہ

ساہیوال کے لوگ اس شخص کو یاد رکھ سکیں اور دوسرا کرنل کے والدین کی قبروں کی مرمت کر کے انہیں بھی بحال کر دیں اور اگر ممکن ہو تو کونویل فیملی کے کسی فرد کو برطانیہ سے بلا کر ساہیوال کی سیر کرا دیں‘ اس شخص کے لیے ہماری طرف سے کم از کم عطیہ ہو گا جس نے اپنی دو نسلیں اس زمین پر وار دی تھیں‘ وہ شخص واقعی کمال تھا‘ وہ سو سال پہلے وہ سب کچھ کر گیا جو ہم آج بھی نہیں کر سکتے‘

کاش حکومت ماضی کے ایسے کرداروں کو تلاش کر کے ان کے پروفائل مرتب کرے‘ شائع کرے اور کونویل ہائوسز جیسی عمارتیں بحال کر کے لوگوں کو یہ بتا سکے ہمارے ملک میں بھی دیکھنے اور سیکھنے کی بے شمار جگہیں موجود ہیں لیکن شاید ہم یہ نہیں کر سکیں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ تعمیر ہمارے ڈی این اے ہی میں نہیں ہے‘ ہمارے ہاتھوں میں تخریب کے سوا کوئی لکیر نہیں‘ ہم صرف ایک کام بہترین طریقے سے کر سکتے ہیں اور وہ ہے توڑ دیں‘ گرا دیں اور مار دیں اور ہم یہ کام من حیث القوم پوری ایمان داری کے ساتھ کر رہے ہیںاور دنیا میں شاید کوئی بھی قوم اس شعبے میں ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…