معیشت سب سے بڑا رشتہ ہے

2  ستمبر‬‮  2017

حقائق اور جذبات میں کیا فرق ہے؟ پاکستانیوں کو یہ جاننے کیلئے ایک بار سری لنکا ضرور جانا چاہئے۔سری لنکا میں سنہالی اور تامل دو بڑیں قومیتیں آباد ہیں۔ سنہالی 74 فیصد اور تامل 17فیصد تھے‘ تامل زیادہ پڑھے لکھے اور متحرک تھے‘ یہ یونیورسٹیوں میں بھی زیادہ دکھائی دیتے تھے‘ حکومت نے 1970ء کی دہائی کے شروع میں اعلیٰ تعلیم کیلئے چند ایسی اصلاحات کیں جن کا سنہالیوں کو فائدہ اور تامل کو نقصان تھا‘ سری لنکا کے شمالی صوبے جافنا میں تاملوں کی اکثریت تھی‘

یونیورسٹی کے ایک تامل طالب علم ستیاسلین نے ان اصلاحات کے خلاف ’’تامل سٹوڈنٹس لیگ‘‘ بنالی‘ لیگ نےپرامن جلسے شروع کر دئیے‘ حکومت نے تامل طالب علموں کو دبانے کی کوشش کی‘ لیگ میں شامل چندجوشیلے نوجوان تنظیم سے ٹوٹے اور انہوں نے تامل نیو ٹائیگرز کے نام سے اپنی جماعت بنا لی‘ ایک نوجوان طالب علم پرابھاکران بھی اس تنظیم میں شامل ہو گیا‘ حکومت نوجوانوں کو دباتی رہی اور یہ ابھرتے رہے یہاں تک کہ ان نوجوانوں نے پرابھاکران کی قیادت میں تامل ایلام لبریشن آرگنائزیشن بنا لی اور علیحدہ صوبے کا مطالبہ کر دیا‘ حکومت نے نوجوانوں کو غدار قرار دے دیا‘ نوجوانوں نے جواب میں سرکاری دفتروں پر حملے شروع کر دئیے‘ جافنا کا میئر ان کا پہلا ٹارگٹ بنا‘ وہ 1975ء میں کرشن ٹمپل میں عبادت کیلئے آیا اور تامل نوجوانوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا‘ اندرا گاندھی بھارت کی وزیراعظم تھی‘ جافنا کے میئر کے قتل کی خبر دہلی پہنچی تو اندرا گاندھی نے سری لنکا کو بھی پاکستان کی طرح دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ جافنا بھارت سے صرف 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے‘ دونوں کے درمیان سمندری پانی کی چھوٹی سی پٹی ہے‘ بھارت اگر اس پٹی پر قابض ہو جاتا تو اسے خلیج بنگال پر مناپلی حاصل ہو جاتی اور اندرا گاندھی نے یہ مناپلی قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ را نے تامل نوجوانوں سے رابطہ کیا اور انہیں ٹریننگ اور اسلحہ دینا شروع کر دیا‘

تامل نے جولائی 1983ء میں سری لنکن فوج پر پہلا خوفناک حملہ کیا‘یہ واقعہ سری لنکا کی تاریخ میں ’’بلیک جولائی‘‘ کہلاتا ہے‘ را نے اس حملے کے بعد بھارت میں 32 ٹریننگ کیمپ بنائے‘ 495 تامل نوجوان جمع کئے (ان میں 90 خواتین بھی شامل تھیں) اور انہیں باقاعدہ فوجی ٹریننگ دینا شروع کر دی‘ یہ کیمپ جھاکران‘ ہماچل پردیش‘ تامل ناڈو‘ راجستھان اور نینی تال میں تھے‘ آپ قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے نینی تال کے کیمپ سے ٹریننگ لینے والی ایک خاتون نے 1991ء میں اندرا گاندھی کے صاحبزادے راجیو گاندھی پر خود کش حملہ کیا اور وہ آنجہانی ہو گئے۔

یہ 495 نوجوان اٹھے اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘اسی دوران تامل ایلام لبریشن آرگنائزیشن کا نام تبدیل ہوا اور یہ لبریشن تامل ٹائیگرز ایلام ہو گئی‘ یہ عرف عام میں ایل ٹی ٹی ای اور تامل ٹائیگرز کہلانے لگی‘ تامل ٹائیگرز نے 1987ء میں بلیک ٹائیگرز کے نام سے خود کش حملہ آوروں کا سکواڈ بنایا اور سیاستدانوں‘ معیشت دانوں اور فوج کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا‘ بلیک ٹائیگرز دنیا کا پہلا گروپ تھا جس نے خود کش بیلٹس اور خود کش جیکٹس ایجاد کیں اور خواتین کو خود کش حملوں میں استعمال کیا‘ بلیک ٹائیگرز نے 1987ء سے 2007ء تک سری لنکا میں 378 خود کش حملے کئے‘

یہ حملے 274 مردوں اور 104 خواتین نے کئے اور ان میں 30 ہزار لوگ مارے گئے‘ دنیا میں سب سے زیادہ لیڈرز‘ فوجی افسر‘ بیوروکریٹس اور پولیس مین تامل ٹائیگرز کے ہاتھوں قتل ہوئے‘تامل نے 1991ء میں بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو الیکشن مہم کے دوران اڑا دیا جبکہ سری لنکن صدر رانا سنگھا پریماداسا 1993ء میں ان کا شکار بنے‘ ٹائیگرز نے ان کے علاوہ ایک صدارتی امیدوار‘ سیاسی جماعتوں کے 10 قائدین‘ 7 وفاقی وزراء‘ 37 ارکان پارلیمنٹ‘ 6صوبائی وزیر‘ 22 ارکان صوبائی اسمبلی‘ 17 سیاسی آرگنائزر اور 4 میئر بھی قتل کئے۔

پاکستان میں اس وقت جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی‘ جنرل ضیاء الحق اندرا گاندھی سے 1971ء کی جنگ کا بدلہ لینا چاہتے تھے‘ سری لنکن فوج نے جنرل ضیاء الحق سے رابطہ کیا‘ پاکستان نے مدد کی حامی بھر لی‘ بریگیڈئر طارق محمود کو سری لنکن فوج کی ٹریننگ کا ٹاسک دیا گیا‘ بریگیڈئر طارق نے کمال کر دیا‘ سری لنکن آرمی آج بھی بریگیڈئر طارق محمود کو اپنا محسن سمجھتی ہے‘ پاکستان کی مدد نے لنکن آرمی میں جذبہ پیدا کیا اور یہ تامل ٹائیگرز سے لڑنے لگی لیکن یہ آسان کام نہیں تھا‘

تامل ٹائیگرز کو بھارت کی مکمل سپورٹ حاصل تھی‘ را انہیں ٹریننگ بھی دیتی تھی‘ ہتھیار بھی ‘ رقم بھی اور مواصلاتی مدد بھی‘ یہ لوگ اتنے طاقتور تھے کہ انہوں نے 1995ء میں لنکن نیوی کے دو بحری جہاز ڈبو دئیے جبکہ 2000ء میں شمالی سری لنکا کا 76 فیصد رقبہ تاملوں کے قبضے میں آ گیا‘ 15 ہزار مربع کلومیٹر پر تامل ٹائیگرز کا جھنڈا لہراتا تھا‘ یہ لوگ جافنا میں داخلے کے تمام راستوں پر بھی قابض ہو چکے تھے‘ بھارت اور امریکا نے سری لنکا کو جافنا کو آزاد کرنے کا مشورہ دے دیا ‘

یوں محسوس ہوتا تھا سری لنکا دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا لیکن پھر اچانک حالات نے پلٹا کھایا اور سری لنکا کے آرمی چیف پاکستان پہنچ گئے‘ یہ جنرل پرویز مشرف کے کورس میٹ تھے‘ جنرل پرویز مشرف نے سری لنکا کیلئے پاکستان کے سارے اسلحہ ڈپو کھول دئیے‘سری لنکا کی فوج نے جو مانگا پاکستان نے حوالے کر دیا‘ پاکستان نے لنکن فوجیوں کو ٹریننگ اور جنگ لڑنے کا طریقہ بھی سیکھایا اور ان کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ بھی کی‘ یہ تعاون 2005 ء میں اس وقت مزید بڑھ گیا جب تامل ٹائیگرز نے آرمی چیف جنرل ساراتھ فنسیکا پر حملہ کر دیا‘

پاکستان نے اس حملے کے بعد سری لنکا کو اپنے سی ون تھرٹی جہازوں پر جافنا میں ہتھیار فراہم کئے‘ تاملوں کے پاس اس وقت چھوٹے جنگی جہاز اور طیارہ شکن توپیں موجود تھیں چنانچہ یہ کام قریباً ناممکن تھا لیکن پاکستان نے یہ کام کیا‘ سری لنکا نے پاکستان کی مدد سے 2006ء میں تامل ٹائیگرز پر خوفناک حملے شروع کئے اور دنیا کی خوفناک ترین دہشت گرد تنظیم کو ہلا کر رکھ دیا‘ یہ حملے 2009ء تک جاری رہے یہاں تک کہ تامل ٹائیگرز نے 17 مئی 2009ء کو ہتھیار پھینک دئیے‘

ایل ٹی ٹی ای کا سربراہ پرابھاکران 19 مئی کو مارا گیا‘ یوں 26 سال لمبی جنگ ختم ہو گئی۔ پاکستان میں اس وقت جنرل کیانی آرمی چیف تھے‘ سری لنکا نے پاکستان اور پاکستان آرمی چیف کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا‘ سری لنکا کے لوگ‘ بیوروکریٹس‘ میڈیا‘ حکومت اور فوج آج بھی پاکستان کی ممنون ہے‘ یہ کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں اگر پاکستان مدد نہ کرتا تو بھارت نے سری لنکا کو توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی‘ آپ آج سری لنکا میں کہیں بھی چلے جائیں‘ لوگ آپ کے سامنے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگائیں گے لیکن یہ نعرے‘ یہ محبت اور یہ اعتراف محض جذبات ہیں حقائق کا ان جذبات سے کوئی تعلق نہیں۔ حقائق کیا ہیں؟ آپ یہ بھی ملاحظہ کیجئے۔

سری لنکا جنگ کے پانچ سال بعد بھارت کے انتہائی قریب اور پاکستان سے دور ہو گیا‘ سری لنکا اور بھارت کے درمیان اس وقت ساڑھے چار بلین ڈالر اور پاکستان اور سری لنکا کے درمیان تین سوملین ڈالر کی تجارت ہے‘ سری لنکا سوئی سے لے کر جہاز تک بھارت سے خریدتا ہے اور بھارتی کمپنیاں سری لنکا میں دھڑا دھڑ فیکٹریاں لگا رہی ہیں‘ آپ جہاں جاتے ہیں آپ کو انڈیا ہی انڈیا دکھائی دیتا ہے‘ آپ کو کسی جگہ پاکستان نظر نہیں آتا۔ سری لنکا بھارت کے کتنے قریب ہے‘ آپ تین واقعات ملاحظہ کیجئے۔

لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا‘ ٹیم واپس چلی گئی‘ بھارت نے آج تک کسی ٹیم کو پاکستان نہیں جانے دیا ۔ پاکستان میں نومبر 2016 میں سارک کی 19 ویں کانفرنس تھی‘ بھارت نے کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا‘پاکستان اس وقت حیران رہ گیا جب سری لنکا نے بھی تحریراً بھارتی موقف کی حمایت کر دی‘ سری لنکا پاکستانیوں کو ائرپورٹس پر ویزہ جاری کرتا تھا‘ یہ سہولت بھی پچھلے سال واپس لے لی گئی اور پاکستان کیلئے ویزے کا عمل بھی سخت کر دیا گیا جبکہ بھارت کے شہری ویزے کے بغیر سری لنکا جا سکتے ہیں۔

یہ کیا ہے اور یہ کیوں ہے؟ یہ حقائق ہیں اور یہ حقائق ثابت کرتے ہیں قوموں کے درمیان جذبات کی بنیاد پر تعلقات قائم ہو تو سکتے ہیں لیکن چل نہیں سکتے۔بھارت کی معیشت مضبوط ہے اور یہ سری لنکا کے قریب بھی ہے چنانچہ سری لنکا نے چند برسوں میں بھارت کی تامل ٹائیگرز کی سپورٹ بھی بھلا دی‘ 26 برس لمبی جنگ بھی فراموش کر دی اور 30 ہزار لاشیں بھی ماضی میں دفن کر دیں جبکہ ہم سری لنکا سے دور بھی ہیں اور ہماری معیشت بھی مضبوط نہیں چنانچہ ہمارا رشتہ کمزور پڑتا جا رہا ہے‘

سری لنکا ہمارا احسان مانتا ہے لیکن یہ اس احسان کے بدلے قربانی دینے کیلئے تیار نہیں۔ سری لنکن پاکستانیوں کیلئے دل کھول دیتے ہیں لیکن یہ اپنی منڈیا ں کھولنے کیلئے تیارنہیں ہیں۔ ہمیں سری لنکا کے رویے سے سبق سیکھنا چاہئے‘ ہمیں اب ’’تو میرا بھائی‘ میں تیرا بھائی‘‘ جیسی پالیسی ترک کر دینی چاہئے اور امریکا‘ یورپ اور عربوں کے ساتھ بھی تعلقات کی ترتیب ٹھیک کرنی چاہئے‘

ہمارے ساتھ جو اچھا ہو ہمیں اس کے ساتھ اچھا رہنا چاہئے اور جو ہمارے ساتھ برا کرے ہمیں اسے خدا حافظ کہہ دینا چاہئے۔ ہمیں اب یہ حقیقت بھی مان لینی چاہئے معیشت دنیا کا سب سے بڑا اور مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔ آپ اگر معاشی لحاظ سے تگڑے ہیں تو پوری دنیا آپ کی دوست ہے اور آپ اگر کمزور اور غریب ہیں تو سری لنکا بھی آپ کے احسان بھول جائے گا‘ یہ آپ کے ساتھ کرکٹ تک نہیں کھیلے گا۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…