ہمیں اب ایک مضبوط فوج بھی چاہیے

20  مئی‬‮  2015

ہمارے پاس گوادر کاشغر روٹ کے علاوہ کوئی معاشی آپشن نہیں‘ کیوں ؟ کیونکہ ہم ترقی کی چار بڑی ٹرینیں مس کر چکے ہیں‘ ہماری برآمدات1969ءمیں چار ایشین ٹائیگرز ملائشیا‘ انڈونیشیا‘ تھائی لینڈ اور جنوبی کوریا کی مجموعی ایکسپورٹس سے زیادہ تھیں‘ ہم 1960ءکی دہائی میں پورے ایشیا کے معاشی لیڈر تھے لیکن پھر ہم نے صنعتوں اور تجارتی اداروں کو قومی تحویل میں لیا اور اپنی ٹرین کا انجن بٹھا دیا‘ یہ ہماری مس ہونے والی پہلی ٹرین تھی‘ دنیا میں 1980ءمیں ”ڈیجیٹل ریوولوشن“ آیا‘ دنیا کی ہر مشین گھراری‘ چین اور ہائیڈرالک سے الیکٹرانکس میں شفٹ ہوئی‘ دنیامشینوں میں موٹر‘ چپ اور ریموٹ کنٹرول لگانے لگی لیکن ہم نے افغان وار چھیڑ لی یوں ہماری دوسری ٹرین بھی مس ہو گئی‘ دنیا میں نوے کی دہائی سرمایہ کاری کی دہائی تھی‘ سوویت یونین تک نے اپنے آہنی پردے گرائے‘ یونین توڑی اور سرمایہ کاری کے دور میں داخل ہو گیا‘ چین نے بھی اپنی فلاسفی ”ری وزٹ“ کی اور دنیا بھر کی کمپنیوں کو کاروبار اور سرمایہ کاری کی دعوت دے دی مگر ہم سرمایہ کاری پر توجہ دینے کی بجائے افغان وار کی کرچیاں جمع کرنے لگے‘ ملک میں دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور ہمارے رہے سہے سرمایہ کار بھی بھاگ گئے‘ دنیا 2000ءمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہد میں داخل ہوئی‘ آپ آج دنیا کی بڑی کارپوریشنز اور کمپنیوں کا ڈیٹا نکال کر دیکھیں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ دنیا کی 40 فیصد دولت انفارمیشن کمپنیوں کے اکاﺅنٹس میں ہے‘ ایپل کمپنی کی برانڈ ویلیو اس وقت 112 بلین ڈالر ہے‘ گوگل اگر صرف اپنا نام اور لوگو بیچ دے تو اسے 102 بلین ڈالر مل جائیں گے‘ آپ فیس بک‘ ٹویٹر اور واٹس ایپ کی ” برانڈ ویلیو“ بھی نکالیں‘ آپ کو آئی ٹی کی ایک ایک کمپنی پاکستان کے کل بجٹ سے زیادہ سرمایہ کماتی نظر آئے گی لیکن ہم نے یہ ٹرین بھی مس کر دی‘ ہم آج 2015 ءمیں ملک کا پہلا آئی ٹی آرڈیننس تیار کر رہے ہیں اور ہم سے یہ بھی مکمل نہیں ہو پا رہا‘ ہمارے پاس اب پانچواں اور آخری موقع بچا ہے‘ دنیا میں آج راہداریاں انڈسٹری بن رہی ہیں‘دنیا کے مختلف ملک نہریں کھود کر سمندروں کو آپس میں ملا چکے ہیں‘ ملک سمندروں کے اندر ٹنلز بنا کر رابطے استوار کر چکے ہیں‘ اب بھارت‘ چین اور روس کی باری ہے‘ یہ بھی جس دن سرحدوں سے باہر نکل آئیں گے اس دن دنیا حقیقتاً گلوبل ویلج بن جائے گی‘ چین لمحہ موجود میں دنیا کا سب سے بڑا تجارتی اور صنعتی یونٹ ہے‘ یہ ہر سال 228بلین ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کرتا ہے‘ چین شنگھائی سے تجارتی سامان لوڈ کرتا ہے‘ چین کے ایک بحری جہاز کوشنگھائی سے جدہ‘ دوبئی‘ ایران یا کراچی پہنچنے کےلئے 14 ہزار کلو میٹر فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے‘ یہ اگر کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائین اور سڑک بنا لے تو 14 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ سمٹ کر 21 سو کلو میٹر رہ جائے گا‘ سڑک اور ریل بحری جہازوں کے مقابلے میں سستا ذریعہ بھی ہے چنانچہ ہمیں کسی قیمت پر یہ ٹرین مس نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہم نے اگر یہ ٹرین بھی مس کر دی تو پھر پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا‘ ہمارے دشمن سندھ اور بلوچستان کو ملک سے الگ کر کے سڑک بنا لیں گے ‘یہ روٹ ہماری زمینی اور معاشی سلامتی کےلئے ضروری ہے‘ یہ ہر صورت بننا چاہیے لیکن ہمیں گوادر کاشغر روٹ بنانے سے قبل تاریخ کے ایک اور ستم کا جائزہ بھی لینا چاہیے‘ ہمیں تاریخ کا ادراک بھی ہونا چاہیے‘ ہمارے منصوبہ بندی کے وزیر احسن اقبال اور وزیراعظم میاں نواز شریف کو فوری طور پر ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ مطالعہ انہیں ماضی کی ان غلطیوں سے بچائے گا جو ہندوستان کے چوتھے مغل شہنشاہ جہانگیر نے کیں تھیں اور ان غلطیوں کی پاداش میں پورا ہندوستان تین سو سال کےلئے غلامی میں چلا گیا ۔



کالم



عمران خان پر مولانا کی مہربانی


ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…