میں اپنے دوست احسن اقبال کو چند لمحوں کےلئے ایسٹ انڈیا کمپنی اور مغل سلطنت کے عروج و زوال کی طرف لے جانا چاہتا ہوں‘ پروفیسر احسن اقبال صاحب کو یاد ہو گا ملکہ الزبتھ نے 31 دسمبر 1600ءکو برطانیہ کے بڑے تاجروں اور جاگیرداروں کو ایسٹ انڈیا کمپنی بنانے کی اجازت دی‘ یہ لوگ سورت پہنچے‘ سورت کے راجہ کو تحائف دیئے اور ہندوستانی زمین پرپہلی تجارتی کوٹھی بنالی‘ سورت کے لوگ اس ڈائریکٹ انویسٹمنٹ پر خوشیوں کے شادیانے بجانے لگے‘ 1614ءکو جیمز اول نے سرتھامس روی کو جہانگیر کے دربار میں پیش ہونے اور گجرات میں فیکٹریاں لگانے کی اجازت حاصل کرنے کا مشورہ دیا‘ سرتھامس روی آگرہ پہنچ گیا‘ انگریز نے بیمار شہزادی کو کونین کی دو گولیاں کھلائیں اور بادشاہ نے انگریزوں کو احمد آباد اور آگرہ میں فیکٹریاں لگانے کی اجازت دے دی‘ انگریز ہندوستان سے سوت‘ کپاس‘ ریشم‘ نمک‘ چائے اور افیون خریدنے لگا‘ ہندوستانیوں کو رقم ملی‘ یہ خوش ہو گئے‘ فیکٹریاں اور گودام بنے تو چوریاں بھی ہونے لگیںاور انگریز اہلکاروں پر حملے بھی شروع ہو گئے‘ انگریزوں نے راجوں مہاراجوں سے اپنی حفاظت کےلئے مقامی گارڈز بھرتی کرنے کی اجازت لے لی‘ راجوں نے سوچا ہمارے مقامی لوگوں کو نوکریاں ملیں گی‘ یہ اچھا موقع ہے‘ انگریزوں کو گارڈز بھرتی کرنے کی اجازت دے دی گئی‘ انگریز نے گارڈز کےلئے برطانیہ سے اسلحہ منگوانا شروع کر دیا‘ اسلحہ آیا تو اسلحے کی ٹریننگ کےلئے انگریز کپتان بھی آ گئے‘ انگریز کپتانوں نے گارڈز کی پلٹونیں بنائیں اور ان کی ٹریننگ شروع کر دی یوں ہندوستان میں انگریزوں کی پرائیویٹ آرمی تیار ہو گئی‘ راجوں نے اعتراض کیا تو کمپنی نے راجہ صاحبان کو پیش کش کر دی‘ فوج کو اسلحہ اور تنخواہ ہم دیں گے لیکن ملکیت آپ کی ہو گی‘ آپ فوج کو جب چاہیں‘ جہاں چاہیں استعمال کریں‘ یہ راجاﺅں کےلئے شاندار آفر تھی‘ راجے خوش ہو گئے‘ یہ لوگ انگریز فوج سے ذاتی کام لینے لگے‘ انگریز فوج راجے کا لگان بھی وصول کرتی تھی‘ مخالف ریاستوں پر حملے بھی کرتی تھی اور انگریزوں کے گوداموں کی حفاظت بھی کرتی تھی‘ یہ سلسلہ چلتا رہا‘ انگریزوں نے 1690ءمیں مدراس‘ 1661ءمیں ممبئی‘ 1668ءمیں اڑیسہ اور 1690ءمیں کلکتہ میں بھی فیکٹریاں بنا لیں‘ کلکتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا مرکز بن گیا‘ انگریزوں کی پرائیویٹ آرمی کی خبریں آگرہ اور دلی پہنچتی رہیں لیکن مغل اسے مشرقی ساحلوں کا مقامی ایشو سمجھ کر خاموش بیٹھے رہے‘ مرکز کمزور ہوتا رہا‘ مغل فوج تلواروں اور گھوڑوں کے عہد میں بغلیں بجاتی رہی اور انگریز قدم بہ قدم مضبوط ہوتا رہا یہاں تک کہ 1757ءآ گیا‘ پلاسی کے میدان میں رابرٹ کلائیو اور نواب آف بنگال سراج الدولہ کے درمیان جنگ ہوئی‘ انگریزوں کے پاس صرف آٹھ سو گورے اور دو ہزار دو سو مقامی فوجی تھے‘ نواب سراج الدولہ 50 ہزار جوانوں کے ساتھ میدان میں اترے‘ انگریز کے پاس بندوق تھی‘ ہمارے ہاتھ میں تلوار تھی‘ بندوقوں نے ہمارے سینے شق کر دیئے‘ رہی سہی کسر میر جعفر نے پوری کر دی‘ ہم ہار گئے‘ یہ انگریز فوج کی پہلی فتح تھی‘ اس کے بعد میجر ایڈم نے 1763ءمیں میر قاسم کو بھی شکست دے دی‘ میسور کے حکمران حیدر علی پہلے ہندوستانی تھی جنہوں نے انگریزوں کے ارادے بھانپ لئے‘ یہ پوری زندگی انگریزوں سے برسر پیکار رہے‘ حیدر علی کے بعد ٹیپو سلطان میدان میں اترے لیکن یہ بھی مئی 1799 ءمیں سرنگا پٹنم میں مار کھا گئے اور انگریز پورے بنگال پر قابض ہو گیا‘