توکل

17  مئی‬‮  2015

ہم اب آتے ہیں مادہ‘ علم‘ ٹیکنالوجی اور روح کی طرف‘ ہم دنیا کی جس چیز کو چھو‘ چکھ‘ سونگھ اور محسوس کر سکتے ہیں‘وہ مادہ کہلاتی ہے‘ مٹی کے ذرے سے لے کر اربوں کھربوں نوری سالوں تک پھیلی یہ ساری کائنات مادہ ہے‘ ہم خود بھی مادہ ہیں‘ ہم پوری زندگی مادے میں زندہ رہتے ہیں اور ہم مرنے کے بعد بھی مادے ہی میں دفن ہوتے ہیں‘ مادہ ہے کیا؟ اس کی کتنی قسمیں ہیں؟ اور یہ انسان کےلئے مفیدکیسے ہو سکتا ہے؟ یہ سوال اور ان کے جواب ”علم“ کہلاتے ہیں۔ اب ٹیکنالوجی کیا ہے؟ ٹیکنالوجی مادے کو انسان کےلئے کارآمد بنانے کا فن ہے‘ مثلاً آپ پانی کی مثال لیجئے‘ پانی مادہ ہے‘ پانی کے عناصر یا اجزاءکون کون سے ہیں؟ یہ علم ہے اور پانی سے انجن چلانا اور بجلی پیدا کرنا یہ ٹیکنالوجی ہے‘ مثلاً سورج اور سورج کی روشنی مادہ ہے‘ یہ روشنی کیسے کام کرتی ہے‘ یہ علم ہے اور اس روشنی سے سولر لائیٹس بنانا یہ ٹیکنالوجی ہے اور مثلاً ہوا مادہ ہے‘ یہ ہوا ہماری زندگی کےلئے کتنی ضروری ہے‘ یہ علم ہے اور اس ہوا کو سفر کا ذریعہ بنانا‘ اس کی مدد سے ہیلی کاپٹر اور جہاز اڑانایہ ٹیکنالوجی ہے‘آپ اگر انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا انسان نے ہزاروں سال مادے پر تحقیق کی‘ یہ تحقیق علوم کی بنیاد بنی اور علوم سے بعد ازاں ٹیکنالوجی برآمد ہوئی چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں مادہ باپ ہے‘ علم ماں ہے اور ٹیکنالوجی اولاد ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے‘ انسان کو علم اور ٹیکنالوجی کی ضرورت کیوں ہے؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے‘ قدرت نے انسان کو لاکھوں سال قبل بے مہر‘ ننگی‘ سرد اور گرم زمین پر پھینک دیا‘ ہمارے پاس ہوا‘ پانی اور روشنی کے سوا کچھ نہ تھا‘ ہم تھے اور ہماری ایک لاکھ ضرورتیں تھیں‘ ہم ان ضرورتوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تھے‘ ہم ضرورتیں پوری کرنے کےلئے نکل کھڑے ہوئے‘ یہ ضرورتیں ہمیں علم کے راستے پر لے آئیں اور علم ہمیں ٹیکنالوجی تک لے گیا‘ آج بھی ہمارے جسم میں جب کوئی نئی بیماری پھوٹتی ہے تو یہ ایک نئی ضرورت کو جنم دیتی ہے‘ یہ ضرورت طبی علوم کو جگاتی ہے اور انسان کوئی ایسی ٹیکنالوجی پیدا کر تا ہے جو انسان کی یہ ضرورت پوری کر دیتی ہے‘علم اور ٹیکنالوجی انسان کی ضرورت ہیں اور یہ اس وقت تک ضرورت رہیں گی جب تک ہم اور ہماری ضرورتیں موجود ہیں‘ جس دن ہم نہیں رہیں گے‘ اس دن ہماری ضرورتیں بھی نہیں رہیں گی اور جس دن ہماری ضرورتیں نہیں رہیں گی اس دن ٹیکنالوجی اور علم بھی نہیں رہے گا۔
ہم اب آتے ہیں روح کی طرف۔ روح کائنات کے مالک یعنی اللہ تعالیٰ کا اذن‘ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے‘ یہ ایک ایسا مائیکرو چپ ہے جو جب جانداروں کے وجود میں لگتا ہے تو یہ سانس لینا‘ دیکھنا اور سننا شروع کر دیتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ جس دن یہ چپ نکال لیتا ہے اس دن زندگی کا دیا بجھ جاتا ہے‘ اب سوال یہ ہے‘ کیا اللہ صرف روح کا رب ہے؟ جی نہیں‘ مادہ ہو‘ مادے کا علم ہو یا ضرورتوں کے مطابق مادے کی ہیئت تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی ہو یا پھر روح ہو اللہ تعالیٰ سب کا مالک‘ سب کا مختار ہے‘ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ۔ اب یہ سوال ہے‘ کیا کوئی ذی روح‘ ٹیکنالوجی‘ علم اور مادے کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟ اس کا جواب بھی نہیں ہے کیونکہ آپ ہوں



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…