پاکستان کی بڑی جیل میں ’’کرائے کے قیدی‘‘ دستیاب،بااثر افراد کس طرح آزادی کی زندگی گزار رہے ہیں؟ چونکادینے والے انکشافات

31  مئی‬‮  2018

کراچی(این این آئی)کراچی میں حکام کی مبینہ ملی بھگت سے جیل انتظامیہ سیاسی جماعتوں کے اہم مجرمان و ملزمان سمیت دیگر بااثر قیدیوں کی جگہ ان کے ہم ناموں کو سرکاری مہمان بنالیتی ہے۔ اس طرح اصل مجرمان انتہائی آرام و سکون سے اپنے گھروں، اوطاقوں اور بیٹھکوں میں رہتے ہوئے اپنی قانونی سزائیں پوری کرلیتے ہیں، عملا جیل کی زندگی وہ گزارتے ہیں جو ان کے ہم نام ہوتے ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ نے صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے جیل انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ قیدیوں کی حاضری بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے لگائی جائے لیکن پانچ سال گزرنے کے بعد بھی عدالت عالیہ کے احکامات پرعمل نہیں ہوا۔انسانی حقوق کے علمبردار انصاربرنی ایڈوکیٹ نے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ 2013 میں کراچی سینٹرل جیل کی تین بیرکس میں قیدیوں کی تصدیق جب بائیو میٹرک سسٹم سے کی گئی تو انکشاف ہوا کہ 41 ایسے افراد بھی موجود ہیں جو کسی اور کی سزا کاٹ رہے ہیں۔عالمی شہرت یافتہ سماجی کارکن انصار برنی ایڈوکیٹ نے دعوی کیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے بائیو میٹرک کے تحت قیدیوں کی حاضری لگانے کے احکامات جاری کیے تھے لیکن حکومت سندھ پانچ سال گزرنے پر بھی اس حکمنامے پر عملدرآمد نہیں کراسکی۔انصار برنی ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ انصاربرنی ایڈوکیٹ نے ایک سوال پرکہا کہ جیل انتظامیہ کی ملی بھگت سے سنگین جرائم میں ملوث بااثر قیدیوں کو جیل سے باہر بھیجا جاتا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ صرف کراچی ہی نہیں بلکہ ملک بھر کی جیلوں میں ہورہا ہے۔ملک کے طول و عرض میں یہ بازگشت عرصے سے سنائی دیتی آئی ہے کہ طاقتور، بااثراوردولتمند قیدی کسی بھی ضرورت مند کی مجبوریاں خرید کر اسے پانبد سلاسل کرا تے ہیں اورخود سکھ چین سے زندگی گزارتے ہیں۔یہ امر اس لحاظ سے بھی انتہائی خطرناک ہے کہ اگر عادی مجرمان جیل انتظامیہ کی ملی بھگت سے

دن کا کچھ عرصہ یا چند روز کھلی و آزاد فضا میں سانس لینے کے دوران منصوبہ بندی کے تحت کوئی جرم کربیٹھیں تو کسی کے لیے بھی ثابت کرنا ناممکن ہوجائے گا کہ ہونے والا جرم کس نے کیا ؟۔ماہرین قانون کے مطابق تمام ثبوت و شواہد اس وقت بے کار ہوجاتے ہیں جب مجرم قرار دیا جانے والا ثابت کردیتا ہے کہ وہ جرم کے وقت جیل میں سلاخوں کے پیچھے قید تھا۔جرائم کی دنیا میں متعدد سیریل کلرز کے متعلق عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ وہ جیل انتظامیہ کی ملی بھگت سے اوریا پھر خود اپنی محنت سے جیل کی چہاردیواری پھلانگ کر باہر جاتے ہیں اور قتل سمیت دیگر سنگین وارداتیں کرکے واپس آجاتے ہیں۔ ایسے چالاک مجرمان قانون کی گرفت سے محض اس لیے بچ جاتے ہیں کہ وہ اپنی موجودگی جیل میں ثابت کردیتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



آئوٹ آف دی باکس


کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…