ایم کیو ایم پر پابندی لگا دیں

2  دسمبر‬‮  2016

یہ 1846ءکا سال تھا‘ کراچی ممبئی (پرانا نام بمبئی) کا حصہ ہوتا تھا‘ گورنر ممبئی پورے سندھ کے معاملات بھی دیکھتا تھا‘ کراچی شہر میں اچانک ہیضے کی وباءپھوٹ پڑی‘ انگریز سرکار کو محسوس ہوایہ وباءاگر کراچی تک محدود نہ ہوئی تو یہ چند دنوں میں ممبئی پہنچ جائے گی اور وہاں سے پورے ملک میں پھیل جائے گی‘ گورنر نے کراچی میں بورڈ بنا دیا‘ یہ بورڈ صرف ہیضے کے کنٹرول تک محدود تھا‘ بورڈ نے جلد ہی وباءپر قابو پا لیا لیکن حکومت کو محسوس ہوا یہ وباءکراچی کے سماجی مسائل کی وجہ سے پھیلی اور ہم نے اگر یہ مسائل حل نہ کئے تو ہیضہ زیادہ قوت کے ساتھ واپس آئے گا اور یہ ممبئی تک تباہی پھیلا دے گا چنانچہ حکومت نے ان مسائل کے مستقل تدارک کےلئے ہیضہ کنٹرول بورڈ کو 1852ءمیں کراچی میونسپل کمیشن میں تبدیل کر دیا‘یہ کمیشن 1853ءمیں میونسپل کمیٹی میں بدل گیا اور یہاں سے موجودہ پاکستان کے علاقے میں بلدیاتی اداروں کی شروعات ہو گئی‘

کراچی کو صدی کے آخر تک بلدیہ کی عمارت کی ضرورت پڑ گئی‘ اس وقت لارڈ سینٹ برسٹ جی ممبئی کا گورنر تھا‘ لارڈ سینٹ نے آرکی ٹیکٹ جیمز ایس سی ویونیس کو کراچی بھجوا دیا‘ جیمز سکاٹش تھا‘ وہ ایڈنبرا کا رہنے والا تھا‘ وہ کراچی آیا اور اس نے بندر روڈ پر چھوٹا سا ایڈنبرا بنانے کا فیصلہ کیا‘ گورنر نے 14 دسمبر 1895ءکو سنگ بنیاد رکھ دیا‘ چیف انجینئر میشا ملی کو نگرانی کا فریضہ سونپا گیا‘ عمارت 1915ءمیں مکمل ہو ئی لیکن انگریز سرکار نے محسوس کیا یہ عمارت مستقبل میں چھوٹی پڑ جائے گی چنانچہ سٹرکچر کو بڑا کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ یہ ذمہ داری ایگزیکٹو انجینئر جہانگیر این سیٹھ کو سونپی گئی‘ جہانگیر سیٹھ نے 5 نومبر 1927ءکو کام مکمل کر دیا‘ منصوبے پر کل 17 لاکھ 75 ہزار روپے خرچ ہوئے‘ یہ 31 دسمبر 1930ءکو لوکل گورنمنٹ کے حوالے کر دی گئی اور یہ عمارت بعد ازاں بلدیہ کراچی کہلائی۔
میں 27 نومبر 2016ءکو اس شاندار عمارت میں داخل ہوا‘ یہ واقعی کراچی میں ایک چھوٹا سا ایڈنبرا ہے‘ وہی

پیلا پتھر‘ وہی سرخ چھتیں‘ وہی بیل ٹاور‘ وہی گنبد‘ وہی اونچی کھڑکیاں‘ وہی طویل برآمدے‘ وہی طویل جھروکے‘ وہی اونچی چھت‘ وہی شاہانہ سیڑھیاں اور وہی ہوا کی آمدورفت کا قدیم سکاٹش بندوبست‘ یہ عمارت‘ عمارت کم اور جادوگری زیادہ ہے اور جو شخص اس جادوگری میں پاﺅں رکھ دیتا ہے وہ مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے‘ آپ کمال دیکھئے انگریز نے یہ عمارت 1915ءمیں بنائی تھی‘ کراچی میں اس وقت درجن سے زیادہ گاڑیاں نہیں تھیں لیکن بنانے والوں نے اس وقت بھی عمارت میں دو سو گاڑیوں کی پارکنگ کا بندوبست کیا‘ کونسل ہال میں 57 نشستیں لگائی گئیں لیکن ہال میں اتنی گنجائش رکھی گئی کہ آج وہاں 308 سیٹیں ہیں مگر اس کے باوجود ہال کی شان و شوکت قائم ہے‘ یہ عمارت ایم اے جناح روڈ پر واقع ہے‘ یہ شاہراہ پاکستان بننے سے پہلے بندر روڈ کہلاتی تھی‘ یہ سڑک گرومندر سے شروع ہوتی ہے اور نیٹی جیٹی پر ختم ہوتی ہے‘آج اس سڑک کو بنے سو سال ہو چکے ہیں‘ اس دوران دنیا میں دو عالمی جنگیں ہوئیں‘ انگریز واپس چلے گئے‘ ہندوستان سات آزاد ملکوں میں تقسیم ہو گیا‘ سینکڑوں زلزلے‘ سیلاب اور طوفان آئے لیکن آج تک اس سڑک کو مرمت کی ضرورت نہیں پڑی‘ یہ آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح انگریز نے بنائی تھی‘ بلدیہ کراچی کی شان بھی سو سال گزرنے کے باوجود سلامت ہے‘

ہم نے عمارت میں جہاں جہاں بے ایمانی کے داغ لگائے وہ حصے خراب ہو چکے ہیں لیکن جہاں ہمارے ہاتھ نہیں پہنچے عمارت کے وہ حصے آج بھی عظمت رفتہ کی آواز ہیں‘ وہ آج بھی جیمز ویوینس کی صناعی کی قسم کھا رہے ہیں‘ آپ انگریزوں اور اپنے آپ میں فرق دیکھئے‘ وہ جانتے تھے یہ ان کا ملک نہیں اور وہ کبھی نہ کبھی اس دیس سے نکال دیئے جائیں گے لیکن انہوں نے اس کے باوجود ایسی پائیدار اور شاندار عمارتیں بنائیں جو سو سال بعد بھی سلامت ہیں جبکہ ہم لوگ یہ جانتے ہیں یہ ملک ہمارا ہے‘ ہماری ہڈیاں تک اسی مٹی کی کھاد بنیں گی لیکن ہم قبریں بھی ایسی بناتے ہیں جو کفن میلا ہونے سے پہلے ڈھے جاتی ہیں‘ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ شاید یہ نیتوں کا فتور ہے اور یہ فتور ہمیں کراچی کی ہر سڑک‘ ہر گلی میں نظر آتا ہے‘ یہ شہر کبھی پاکستانیوں کی ماں ہوتا تھا‘ ملک کا کوئی بھی شہری کسی بھی جگہ سے اٹھ کر کراچی آ جاتا تھا اور یہ شہر اسے ماں کی طرح سینے سے لگا لیتا تھا لیکن ہم نے اس ماں کو مار ڈالا‘ کراچی نے ستر سال پورے ملک کو پالا لیکن ہم نے ناخلف اولاد کی طرح اس شہر کو گلیوں میں رول دیا‘ یہ درست ہے کراچی کو خرابی‘ گندگی اور جرائم کا گڑھ بنانے میں ایم کیو ایم (سابق) کا بہت بڑا ہاتھ تھا‘ یہ ٹارگٹ کلنگ‘ اغواءبرائے تاوان‘ بھتہ خوری اور غنڈہ گردی میں ملوث رہی لیکن سوال یہ ہے کیا صرف ایم کیو ایم اکیلی اس کی ذمہ دار ہے؟ جی نہیں کراچی کو ہر اس گروپ‘ ہر اس پارٹی اور ہر اس خاندان نے لوٹا جسے اس شہر نے پناہ‘ رزق اور اقتدار دیا چنانچہ کراچی کی بربادی کے پرچم تلے سب ایک ہیں۔

میں 27 نومبر کی دوپہر بلدیہ کراچی کی سکاٹش عمارت میں داخل ہوا‘ کراچی کے نئے میئر وسیم اختر نے مجھے ”ویل کم“ کیا‘ وہ میئر کے دفتر میں میئر کی کرسی پر بیٹھے تھے‘ میں تین گھنٹے ان کے ساتھ رہا‘ ہم دفتر میں بھی بیٹھے‘ ہم نے بلدیہ کراچی کی عمارت بھی دیکھی اور ہم اس ہال میں بھی گئے جس میں 85 برس سے اس شہر کی قسمت کے فیصلے ہو رہے ہیں اور ہم ڈاکٹر فاروق ستار کے اس چھوٹے سے گھر میں بھی گئے جس میں اس وقت سندھ کی دوسری اور ملک کی چوتھی بڑی جماعت کا عارضی دفتر ہے‘ بلدیہ کراچی سے ایم کیو ایم کے عارضی دفتر تک غیر یقینی کے ڈھیر لگے تھے‘ پاکستان کا سب سے بڑا میئر شہر کےلئے پریشان تھا‘ وہ کراچی کےلئے کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس اختیارات اور فنڈز نہیں ہیں‘ اختیارات پر صوبائی حکومت بیٹھی ہے‘ کیوں؟ پورا ملک جانتا ہے پیپلز پارٹی کسی قیمت پر ہیرے کی اس کان کو ہاتھ سے نہیں نکلنے دے گی‘ کراچی شہر میں روزانہ سو ارب روپے نکلتے اور داخل ہوتے ہیں‘ حکومت اتنا بڑا ”منی باکس“ کسی دوسرے کے حوالے نہیں کرسکتی‘ یہ شہر پیپلز پارٹی کا سیاسی قلعہ بھی ہے‘ یہ قلعہ اگر ایم کیو ایم کے پاس چلا گیا تو پارٹی 2018ءکا الیکشن کیسے لڑے گی‘ پاکستان مسلم لیگ ن ایم کیو ایم کو سپورٹ کر سکتی ہے لیکن پانامہ کیس عدالت میں ہے‘ یہ اس نازک وقت میں جب عمران خان پوری طاقت کے ساتھ حکومت پر دھاوا بول رہے ہیں یہ پاکستان پیپلز پارٹی کو مکمل طور پر مایوس نہیں کر سکتے اور پیچھے رہ گئے

عسکری ادارے‘ یہ البتہ ایم کیو ایم کو کیک کا اتنا حصہ دے سکتے ہیں جس سے یہ ”سروائیو“ کر سکے لیکن یہ اس پارٹی پر مکمل اعتمار کےلئے تیار نہیں ہیں جس کے بانی الطاف حسین ہیں چنانچہ کراچی بری طرح مسائل کا شکار ہے‘ یہ شہر روزانہ لاکھوں ٹن کچرا پیدا کرتا ہے‘ یہ کچرا چھ برس سے اٹھایا نہیں گیا اور یہ اب پالوشن بن کر لوگوں کی پھیپھڑوں اور معدوں میں جا رہا ہے‘ شہر کی سڑکوں‘ ہسپتالوں اور سکولوں کی حالت خوفناک ہے ‘ شہر سٹریٹ کرائم کا دارالحکومت بھی بن چکا ہے‘ مجھے محسوس ہوا ایم کیو ایم پاکستان کراچی کی حالت پر غم زدہ ہے‘ یہ ماضی کے گناہوں کے داغ بھی دھونا چاہتی ہے اور یہ خود کو اردو بولنے والے پرامن شہریوں کی پرامن جماعت بھی ثابت کرنا چاہتی ہے چنانچہ میرا خیال ہے ان لوگوں کو ایک موقع ملنا چاہیے‘ رینجرز کو نائین زیرو اور خورشید میموریل ہال ان لوگوں کے حوالے کر دینا چاہیے تا کہ یہ اپنا دفتر کھول سکیں‘ ان کے گرفتار کارکنوں کو بھی عدالتوں میں پیش کر دیا جائے یا پھر رہا کر دیا جائے‘ کراچی کے لوگوں نے وسیم اختر کو میئر منتخب کیا ہے‘ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ شہر کے قانونی میئر ہیں اور انہیں میئرشپ کا موقع ملنا چاہیے‘ صوبائی حکومت کو بھی انہیں اختیارات اور فنڈز دینے چاہئیں‘ یہ لوگ کام کرنا چاہتے ہیں‘ انہیں کام سے روکنا زیادتی ہے‘ ان لوگوں کو بلاوجہ مقدمات میںالجھانا بھی غلط ہے‘ یہ لوگ مجرم ہیں تو انہیں سزا دیں اور یہ اگر بے گناہ ہیں تو آپ انہیں کام کرنے دیں‘آپ خود فیصلہ کیجئے میئر 40 جھوٹے سچے مقدموں کے ساتھ کام کیسے کرے گا؟ اور آخری درخواست‘ نئے آرمی چیف آ چکے ہیں‘ یہ ایم کیو ایم کی لیڈر شپ سے ملاقات کریں‘ یہ ان کی بات بھی سن لیں‘ ہو سکتا ہے یہ غلط نہ ہوں اور آپ اگر یہ نہیں کرنا چاہتے‘ آپ اگر انہیں ذرا سی بھی گنجائش نہیں دینا چاہتے تو پھر آپ ایم کیو ایم پر پابندی لگا دیں‘ آپ اسے بین کر دیں تا کہ بانسریاں پیدا کرنے والے بانس ہمیشہ کےلئے ختم ہو جائیں‘ قصہ ہی تمام ہو جائے‘ مطالبے بچیں اور نہ ہی مطالبے کرنے والے۔



کالم



آئوٹ آف دی باکس


کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…