اسلام آباد(آن لائن)وفاقی شرعی عدالت میں جنس تبدیلی کی اجازت کے قانون کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے موقع پر درخواست گزار محمد بن ساجد نے دلائل دئیے کہ قانون میں ہر اس شخص کو خواجہ سرا کہا گیا جو دوسری جنس کا حلیہ اپنائے،رولز میں نادرا کو پابند کیا گیا ہے کہ وہی جنس لکھی جائے گی جو کوئی لکھوانا چاہے،نادرا ریکارڈ میں
جنس وہی ہوگی جو کوئی خود کو سمجھتا ہے یا بننا چاہتا ہے،جنس تبدیلی کی اجازت دینے کا قانون ہم جنس شادیوں کی جانب پہلا قدم ہے،قانون میں لکھا ہے خواجہ سراؤں کو حکومت مالی امداد دے گی،عدالت نے کیس شرعی تناظر میں دیکھنا ہے بنیادی حقوق کے نہیں، اللہ تعالی نے ہر مخلوق کو جوڑوں کی صورت میں تخلیق کیا ہے،بعض خواجہ سراؤں میں خواتین، کچھ میں مردانہ علامات حاوی ہوتی ہیں،تیسری قسم کے خواجہ سراؤں میں کوئی علامت حاوی نہیں ہوتی،شریعت میں اپنی جنس چھوڑ کر دوسرے جیسا بننے والے پر لعنت بھیجی گئی ہے،پیدائشی سرٹیفکیٹ میں ہر بچے کی جنس لکھی ہوتی ہے،ایسا نہیں ہو سکتا کہ 34 سال بعد کوئی کسی کو عورت کہے۔چیف جسٹس شریعت کورٹ نے اس موقع پر ریمارکس دئیے ہیں کہ جو جیسا پیدا کیا گیا ہے خود کو ویسا ہی ظاہر کرنے والے پر کوئی لعنت نہیں، کیا خواجہ سرا انسان نہیں کہ حکومت انکی مالی امداد نہیں کرتی؟جسٹس سید انور نے ریمارکس دئیے کہ جو خواجہ سرا نہیں ہیں
اور خود کو ظاہر کرتے ہیں ان پر سب کو اعتراض ہے،قانون خواجہ سراؤں کے حقوق اور تحفظ کیلئے بنا ہے،قانون غلط ہونا اور اس کا استعمال غلط ہونا الگ الگ چیزیں ہیں،کسی کو خواجہ سرا کی جنس پر اعتراض ہو تو میڈیکل کروایا جا سکتا ہے۔جسٹس شیخ قاسم نے ایک موقع پر ریمارکس دئیے کہ کس کی جنس کیا ہے اس پر تو جھگڑا ہونا ہی نہیں چاہیے۔اوریا مقبول جان
نے موقف اپنایا کہ کوئی مرد خواتین والے کپڑے پہن لے تو وہ عورت کہلائے گا نہ ہی خواجہ سرا، رولز کا نوٹیفکیشن ہوچکا ہے جس میں جنس تبدیلی کی اجازت دی گئی،پیدائشی خواجہ سراؤں کو شریعت نے وراثت اور نکاح سمیت حقوق دیے ہیں،وکیل وفاقی حکومت احسن منگی نے اس موقع پر بتایا کہ رولز میں ایسی شق شامل نہیں ہو سکتی جس کا قانون میں ذکر
نہ ہو، اس بابت وزارت انسانی حقوق سے ہدایات لیکر آگاہ کروں گا،قانون پر عملدرآمد کیلئے رولز بن رہے ہیں۔سینیٹ میں ترمیمی بل ضرور آیا تھا لیکن ابھی منظور نہیں ہوا۔ایک موقع پر خواجہ سرا نایاب علی نے عدالت کے رو برو موقف اپنایا کہ ہمیں کوئی امداد ملی نہ ہی نوکریاں جن کا غلط استعمال ہو سکے،خواجہ سراؤں کیخلاف نفرت پھیل رہی ہے،
جس پر چیف جسٹس شریعت کورٹ نے نایاب علی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے آپکو تخلیق کیا ہے نفرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، خواجہ سرا ماہ نور نے موقف اپنایا کہ معاشرے کے سامنے اپنے کپڑے اتار کر جنس ثابت نہیں کرسکتے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپکو کپڑے اتارنے کا کس نے کہا ہے؟وفاقی شرعی عدالت نے اس موقع پرجعلی خواجہ سراؤں کے سدباب کیلئے تجاویز طلب کرتے ہوئے معاملہ پر مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی ۔