دبئی (این این آئی)انٹرنیشنل کرکٹ کونسل(آئی سی سی) کے سخت اقدامات کے باوجود اسپاٹ فکسنگ کی عفریت نے ایک مرتبہ پھر کھیل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے اور ایشیا کپ کے دوران افغانستان کے اوپنر محمد شہزاد کو اسپاٹ فکسنگ کی پیشکش کی گئی۔اسپاٹ فکسرز نے ایشیا کپ کے دوران محمد شہزاد سے رابطہ کیا اور انہیں 5 سے 23 اکتوبر کے دوران شارجہ میں ہونے والی افغان پریمیئر لیگ کے دوران کمتر کارکردگی دکھانے کے عوض بھاری رقم کی پیشکش کی گئی۔
محمد شہزاد نے فوری طور پر اس حوالے سے ٹیم مینجمنٹ کو آگاہ کیا جس نے آئی سی سی اینٹی کرپشن یونٹ کے علم میں معاملے لانے کے لیے تمام تر ضوابط پر عمل کیا۔افغان پرییئر لیگ کے دوران محمد شہزاد کو پکتیا فرنچائز نے لیا ہے جس میں برینڈن میک کولم، شاہد آفریدی اور کرس گیل جیسے بڑے نام شامل ہیں۔آئی سی سی آفیشل کے مطابق ایشیا کپ کے دوران ایک کھلاڑی تک رسائی کی کوشش کی گئی لیکن یہ افغانستان کی اپنی لیگ کے لیے تھی۔ یہ معاملہ ہفتے کو تمام تر طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے علم میں لایا گیا اور اینٹی کرپشن یونٹ اس پر غور کر رہا ہے۔ دبئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ ایلکس مارشل نے تصدیق کی کہ گزشتہ 12ماہ کے دوران 5انٹرنیشنل ٹیموں کے کپتانوں سے اسپاٹ فکسنگ کے سلسلے میں رابطہ کیا جن میں سے 4کا تعلق آئی سی سی کے فل ممبران ٹیموں سے ہے۔ان پانچ میں سے پاکستان کے کپتان سرفراز احمد وہ واحد کھلاڑی تھے جنہوں نے عوامی سطح پر اس حوالے سے بات کی اور انہیں گزشتہ سال سری لنکا کے خلاف سیریز کے دوران یہ پیشکش کی گئی تھی۔ایلکس مارشل نے بتایا کہ گزشتہ 12ماہ کے دوران 32معاملات کی تفتیش کی گئی جن میں آٹھ کھلاڑیوں کو شک کے دائرے میں لایا گیا۔ اس کے علاوہ پانچ منتظمین یا کرکٹ نہ کھیلنے والے افراد شامل تھے جن میں سے تین افراد پر فرد جرم عائد کی گئی جبکہ پانچ کپتانوں نے بھی آئی سی سی کو آگاہ کیا کہ ان سے اسپاٹ فکسنگ کیلئے رابطہ کیا گیا۔
مارشل نے کرپشن کے خاتمے کے لیے تمام بورڈز کے ساتھ مل کر کام کرنے اور میچ فکسنگ کے طریقوں کے حوالے سے کھلاڑیوں کو تعلیم دینے کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ میچ فکسنگ کے یہ گڑھ نئی ٹی20 لیگز پر اثرانداز ہونے اور کھلاڑیوں کو پھنسانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔یاد رہے کہ یہ معاملہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب گزشتہ روز ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے ٹی10 لیگ کے مالکان پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے آئی سی سی سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس لیگ میں شامل منتظمین اور دیگر مالکان کی تفصیلات منظر عام پر لائے۔