کامیابی کو 4 سال قبل ہونے والی مایوسی کا ازالہ سمجھتا ہوں،انعام بٹ

17  اپریل‬‮  2018

کراچی(این این آئی)21ویں کامن ویلتھ گیمز میں پاکستان کے واحد گولڈ میڈلسٹ پہلوان انعام بٹ نے کہا ہے کہ وہ اس کامیابی کو 4 سال قبل ہونے والی مایوسی کا ازالہ سمجھتے ہیں۔برطانوی ویب سائٹ کو انٹرویو میں انعام بٹ نے کہاکہ میں جب گولڈ کوسٹ پہنچا تو صرف گولڈ میڈل کے بارے میں سوچ رہا تھا،گذشتہ کامن ویلتھ گیمز کے ریسلنگ مقابلوں میں جب بھارت کا ترانہ بجا تومیرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا کہ ہمارا قومی پرچم و ترانہ کیوں شامل نہیں.

انعام بٹ نے بتایا کہ میں گلاسگو میں گھٹنے کی تکلیف میں مبتلا ہوگیا اور ڈاکٹرز نے کہہ دیا تھا کہ میں 6 ماہ تک ریسلنگ نہیں کرسکتا، اس کے باوجود میں نے ایک ٹانگ پرمقابلے کیے اور 3 فائٹس جیتیں لیکن کانسی کے تمغے کیلئے ہونے والی فائٹ 6-6 پوائنٹس سے برابر ہونے کے بعد ٹیکنیکل بنیاد پر ہارگیا۔پاکستانی پہلوان نے کہاکہ کامن ویلتھ گیمز سے قبل میں نے حکومت سے ٹریننگ کے لیے مالی مدد کی اپیل کی لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا، میری ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں حکومت سے کہا تھا کہ وہ مجھے کامن ویلتھ گیمز کی ٹریننگ کیلئے 10 لاکھ روپے دے اور اگر میں تمغہ نہ جیت سکوں تو میں یہ رقم واپس کردوں گا،اس اپیل کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا اور مجھے ٹریننگ کے لیے پاکستان ریسلنگ فیڈریشن اور اپنی مدد آپ پر ہی بھروسہ کرنا پڑا۔انعام بٹ نے کہا کہ وہ کامن ویلتھ گیمز میں 2 طلائی تمغے جیتنے والے واحد ریسلر ہیں تاہم حکومت کی جانب سے پذیرائی نہ ہونے پرمایوس بھی ہیں۔ انھوں نے 2010 میں پہلی بار بھارت میں منعقدہ کامن ویلتھ گیمز میں گولڈ میڈل جیتا تھا،وہ ایشین بیچ چمپئن شپ، سائوتھ ایشین گیمز، کامن ویلتھ ریسلنگ چمپئن شپ اور ورلڈ بیچ گیمز میں بھی طلائی تمغے جیت چکے ہیں۔ریسلر نے کہاکہ پتہ نہیں میں کونسا میڈل جیتوں گا جس پر میرا نام بھی پرائیڈ آف پرفارمنس کیلئے نامزدکیا جائے گا۔ گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے ریسلر نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ حکومت اس بات پر توجہ دے کہ کون سا کھیل اورکون سے شہر پاکستان کو سب سے زیادہ میڈلزجیت کر دے رہے ہیں۔

انعام بٹ نے کہاکہ ورلڈ بیچ گیمز میں طلائی تمغہ جیتنے کے بعد سیکرٹری پنجاب اسپورٹس کی ہدایت پرمجھے گوجرانوالہ میں ایک چھوٹی سی جگہ دی گئی اس کو بہتر کرنے کیلئے میں نے پی ایس بی کی جانب سے دیے گئے 5 لاکھ روپے لگادئیے ٗ وہ جگہ اتنی چھوٹی ہے کہ ریسلنگ کا میٹ بھی اس پر پورا نہیں آتا تاہم میں نہ صرف وہاں ٹریننگ کرتا ہوں بلکہ 40،50 لڑکوں کو بھی ٹریننگ دے رہا ہوں۔ میں ریسلنگ فیڈریشن کے ارشد ستارکا معترف ہوں جو ریسلنگ کے لیے دن رات کام کررہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ گولڈ میڈل کے حصول کے بعد میں زیادہ سوچنا نہیں چاہتا بلکہ میری نظریں اگلے ہدف پر ہیں، وسائل کتنے ہی محدود ہوں اور حکومت مدد کرے یا نہ کرے میں اپنی محنت جاری رکھوں گا۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…