اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے دو روز قبل عمدہ کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو ایوارڈز سے نوازا، جس میں ہندوستان کے روی چندرہ ایشون عمدہ کارکردگی کی بدولت سب پر بازی لے گئے جبکہ انہیں سال کے بہترین ٹیسٹ کرکٹر کے ساتھ ساتھ سال کے بہترین کرکٹر کی سر گارفیلڈ سوبرز ٹرافی سے بھی نوازا گیا۔
14 ستمبر 2015 سے 20 ستمبر 2016 تک روی چندرہ ایشون کی کارکردگی باؤلنگ کے ساتھ ساتھ بیٹنگ میں بھی نمایاں رہی جبکہ 8 ٹیسٹ، 3 ایک روزہ اور 19 ٹی ٹوئنٹی میچوں کے دوران انہوں نے 394 رنز بنائے اور 16.70 کی اوسط سے 78 وکٹیں بھی اپنے نام کیں۔کوئنٹن ڈی کوک کو اس عرصے میں ون ڈے میچوں میں 16 میچوں میں 793 رنز بنانے اور وکٹوں کے پیچھے 15 کیچ پکڑنے پر ایک روزہ میچوں کا بہترین کھلاڑی چنا گیا۔ڈی کوک کا سب سے سخت مقابلہ روٹ سے تھا جنہوں نے 19 ایک روزہ میچوں میں 941 رنز بنائے لیکن ٹیم کی فتوحات میں اہم کردارادا کرنے پر انہیں ایوارڈ کے لیے چنا گیا۔پاکستان کے حصے میں واحد ایوارڈ کسی کارکردگی کے بل بوتے پر تو نہ آ سکا تاہم آئی سی سی نے اسپرٹ آف کرکٹ ایوارڈ دے کر پاکستان کا دل رکھ لیا۔تاہم اب کچھ بات کرتے ہیں چند متنازع فیصلوں کی جس میں سب سے پہلے سال کے بہترین ایمرجنگ کھلاڑی کا ذکر کرتے چلیں جو بنگلہ دیش کے مستفیض الرحمٰن کے حصے میں آیا، یوں وہ آئی سی سی ایوارڈ جیتنے والے پہلے کھلاڑی بنے۔
مستفیض الرحمٰن بلاشبہ انتہائی باصلاحیت نوجوان ہیں جبکہ انہوں نے اپنی کارکردگی سے دنیا بھر میں سب سے بے انتہا داد وصول کی، لیکن اعداد و شمار کے تناظر میں دیکھا جائے تو ان سے زیادہ مستحق کھلاڑی بھی اس فہرست میں نظر آتے ہیں۔اس فہرست میں سری لنکا کے کوشل مینڈس اور ہندوستان کے لوکیش راہل شامل ہیں، جنہوں نے بلے سے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا، لیکن سب سے مضبوط امیدوار جنوبی افریقہ کے نوجوان کگیسو ربادا ہیں۔مستفیض الرحمٰن نے اس تمام عرصے میں محض (تین ون ڈے اور 10 ٹی ٹوئنٹی) 13 میچ کھیلے، جس میں کوئی ٹیسٹ میچ شامل نہیں تھا اور اس دوران 27 وکٹیں لیں۔اسی عرصے کے دوران ربادا نے 32 میچوں میں حصہ لیتے ہوئے 23 کی اوسط سے 67 وکٹیں لیں جبکہ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی ٹیم کو انجری کے شکار فاسٹ باؤلر ڈیل اسٹین کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔
گزشتہ سال کے دوران امپائرنگ کا معیار انتہائی پست رہا اور ڈیسیڑن ریویو سسٹم (ڈی آر ایس) کے ہوتے ہوئے بھی کئی کھلاڑی امپائر کے غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھ گئے، لیکن میراس ایراسمس کو نسبتاً بہتر کارکردگی پر سال کا بہترین امپائر کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔اب کچھ بات آئی سی سی کی جانب سے اعلان کردہ سال کی بہترین ٹیسٹ اور ون ڈے ٹیم کی جس میں چند ناموں کی شمولیت انتہائی حیران کن رہی۔اس فہرست میں سب سے پہلا نام جنوبی افریقی اسٹار ڈیل اسٹین کا ہے، جنہوں نے اس پورے عرصے میں محض 4 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 14 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا، لیکن اس کے باوجود ان کو اس ٹیم میں شمولیت کا اہل سمجھا گیا، حالانکہ ان سے بہتر کئی باؤلرز کو اس ایوارڈ سے نوازا جا سکتا تھا۔
اس سلسلے میں پہلا نام یاسر شاہ کا آتا ہے، کیونکہ روی چندرہ ایشون اور سری لنکا کے رنگنا ہیراتھ پہلے ہی ٹیم میں موجود ہیں، لہٰذا تیسرے اسپنر کی شمولیت غیرضروری محسوس ہوتی ہے۔راہول ڈرایوڈ، کمار سنگاکارا اور گیری کرسٹن جیسے عظیم کھلاڑیوں پر مشتمل پینل سے امید تھی کہ وہ ایک اچھی ٹیم تشکیل دیں گے لیکن پینل میں ایک باؤلر کی کمی کے سبب ایسا نہ کر سکا۔مچل اسٹارک کے پارٹنر کیلئے سب سے بہتر نام جیمز اینڈرسن کا ہے جنہوں نے مقررہ دورانیے میں 12 میچوں کے دوران 50 وکٹیں لیں جبکہ ان کے ساتھی اسٹورٹ براڈ بھی اچھا انتخاب بن سکتے تھے، جہاں انہوں نے 14 میچ کھیل کر 50 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔
ٹیسٹ کی بقیہ ٹیم متوازن نظر آتی ہے، البتہ ایڈم ووجز کا انتخاب کر کے اسٹیون کو 12واں کھلاڑی مقرر کرنا آسٹریلین کپتان کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ووجز نے بلاشبہ 11 میچوں میں 90 کی اوسط سے ایک ہزار 87 رنز بنائے لیکن یہاں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ انہوں نے ویسٹ انڈیز کی ایک سیریز کے دوران 375 رنز بغیر آؤٹ ہوئے بنائے جبکہ اس وقت وہ خراب کارکردگی پر آسٹریلین ٹیم سے ڈراپ بھی کر دیئے گئے ہیں۔
دوسری جانب آسٹریلیا کے کپتان قیادت کے ساتھ ساتھ کئی مشکل مواقع پر ٹیم کیلئے مرد بحران کا کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں، لہٰذا اسمتھ مڈل آرڈر میں جگہ پانے کے زیادہ مستحق تھے۔
یہاں ایک اور بات کرتے چلیں کہ چند لوگوں (خصوصاً ہندوستانی شائقین) کے نزدیک ویرات کوہلی کا انتخاب نہ کرکے انڈین ٹیسٹ ٹیم کے کپتان کے ساتھ زیادتی کی گئی، جس کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ انگلینڈ کے خلاف سیریز میں ویرات کوہلی کی کارکردگی کو بھی اس میں شامل کر رہے ہیں۔14ستمبر 2015 سے 20 ستمبر 2016 تک ویرات کوہلی نے 8 میچوں میں صرف ایک سنچری کی مدد سے 451 رنز بنائے اور کسی بھی طرح اس ٹیسٹ الیون میں جگہ پانے کے حقدار نہ تھے۔
ٹیسٹ الیون کی طرح ایک روزہ میچوں کیلئے اعلان کردہ ٹیم میں بھی اسی طرح کی غلطیاں سرزد کی گئیںجبکہ یہاں بھی معاملہ گڑبڑ نظر آتا ہے، اعدادوشمار سے واضح ہوتا ہے کہ کارکردگی کے بجائے محض بڑے نام ہونے کی بنا کر کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ دی گئی۔
بیٹنگ لائن کی بات کی جائے تو سب سے بڑا سوالیہ نشان ایوارڈ یافتہ کرکٹر روی چندرہ ایشون کے انتخاب پر لگتا ہے، جنہوں نے پورے سال میں محض 3 ایک روزہ میچ کھیلے اور اتنی ہی وکٹیں حاصل کیں۔اسی طرح ایک اور بڑا نام رویندرا جدیجا کا ہے، جنہوں نے اس دوران محض 5 ایک روزہ میچ کھیلتے ہوئے 45 رنز بنائے جبکہ صرف 3وکٹیں لیں۔ایسا نہیں کہ کسی اور کھلاڑی نے ایک روزہ میچوں میں عمدہ کارکردگی نہ دکھائی ہو، بلکہ جنوبی افریقہ کے عمران طاہر 16 میچوں میں 28 وکٹیں لے کر سال کے سب سے بہترین اسپنر رہے ، اس کے باوجود انہیں 12واں کھلاڑی بنایا گیا۔رویندرا جدیجا کی جگہ سب سے بہترین متبادل عماد وسیم نظر آتے ہیں، جنہوں نے اس عرصے میں صرف 8میچ کھیلے اور 2015 رنز بنانے کے ساتھ ساتھ 13 وکٹیں بھی حاصل کیں۔
ان ٹیموں کی عملی طور پر تو کوئی حیثیت نہیں لیکن اس کے قیام کا اصل مقصد مقررہ دورانیے میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو سراہنا اور حوصلہ افزائی کرنا ہے، لیکن ایسا نہ کرکے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کھلاڑیوں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔بگ تھری کے قیام کے بعد سے آئی سی سی کی گورننگ باڈی کے فیصلے پہلے سے ہی مشکوک ہو چکے ہیں جبکہ اب رہی سہی کسر ان ایوارڈز میں کھلاڑیوں کو نواز کر پوری کی جا رہی ہے، لہٰذا کرکٹ کی عالمی گورننگ باڈی کو اس معاملے کو صرف نظر کرنے کے بجائے توجہ دینے کی ضرورت ہے، ورنہ جلد ہی شائقین کی نظر میں کرکٹ کے سب سے بڑے ایوارڈز بھی اپنی قدر و منزلت کھو بیٹھیں گے۔