اسلام آباد(نیوزڈیسک)کرکٹر شہادت حسین نے 11 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے مقدمے میں الزامات کا سامنا کرنے کے لیے خود کو پیش کر دیا ہے۔29 سالہ فاسٹ بولر شہادت حسین اور اُن کی اہلیہ پر لگائے گئے الزامات منظرعام پر آنے کے بعد وہ چھ ستمبر سے روپوش تھے۔عدالت نے شہادت حسین کی جانب سے دائر کی گئی ضمانت کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے اُنھیں جیل بھیجنے کا حکم دے دیا۔ اِس سے ایک روز قبل پولیس نے اُن کی اہلیہ کو گرفتار کیا تھا۔بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ نے اُنھیں کرکٹ کھیلنے سے روک دیا ہے۔ شہادت حسین اور اُن کی اہلیہ نے اپنے اوپر لگائے جانے والے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔شہادت حسین کے وکیل قاضی نضیب اللہ ہیرو نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ شہادت حسین کو ملک کے مفاد میں رہا کیا جانا چاہیے۔’ہم نے دلائل دیے کہ وہ مجرم نہیں ہیں کیونکہ جس روز مبینہ طور پر بچی پر تشدد ہوا وہ گھر پر موجود نہیں تھے۔‘شہادت حسین نے چھ ستمبر کو پولیس سٹیشن جا کر اپنی ملازمہ کی گمشدگی کی درخواست دی تھی۔تاہم جب اُسی روز لاپتہ ملازمہ کے مل جانے پر اُس کو پولیس سٹیشن لے جایا گیا تو ملازمہ نے پولیس کو ریکارڈ کرایا تھا کہ شہادت حسین اور اُن کی اہلیہ کی جانب سے اُس پر بدترین تشدد کیا گیا۔شہادت حسین نے بنگلہ دیش کے لیے اپنا آخری ٹیسٹ میچ پاکستان کے خلاف مئی میں کھیلا تھاڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ملازمہ کو شدید نوعیت کی چوٹیں آئی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے اُس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ تشدد سے ملازمہ کے پیر کی ہڈی ٹوٹ گئی اور آنکھ سوجن سے سیاہ ہو گئی تھی۔پولیس جب شہادت اور اُن کی اہلیہ سے مقدمہ کی تفتیش کے لیے اُن کے گھر پہنچی تو وہ دونوں گھر پر موجود نہیں تھے۔شہادت حسین میڈیم فاسٹ بولر ہیں جن کو ممکنہ طور پر بنگلہ دیش کا سب سے مشہور کھلاڑی بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ سنہ 2005 سے بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کے لیے کھیل رہے ہیں۔شہادت حسین نے بنگلہ دیش کے لیے اپنا آخری ٹیسٹ میچ پاکستان کے خلاف مئی میں کھیلا تھا جس کے دوران وہ انجری کا شکار ہو کر چھ ماہ کے لیے بین الاقوامی کرکٹ سے باہر ہوگئے تھے۔وہ بنگلہ دیش کے پہلے کرکٹر ہیں جن کا نام لارڈز کے اعزازی بورڈ میں شامل کیا گیا تھا جب سنہ2010 مئی میں اُنھوں نے انگلینڈ کے خلاف 98 رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کی تھی