جب ایک اوپننگ بیٹسمین ایک غیر متوقع انجری کی وجہ سے کھیل سے باہر ہوجائے اور سوشل میڈیا پر خوشیاں منائی جائیں، تو جان لیں کہ قوم تنقید کی ماہر ہے۔ مجھے محمد حفیظ کے لیے برا تو محسوس ہو رہا ہے لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ ایک غیر قانونی بولنگ ایکشن رکھنے والے کار آمد آل راؤنڈر ٹیم میں اسپیشلسٹ بیٹسمین کی حیثیت سے جگہ بنانے کے لائق نہیں ہیں۔ ان کے متبادل 25 سالہ ناصر جمشید اوپنر ہیں جن کا 45 میچوں میں ون ڈے ریکارڈ بہتر نہیں رہا ہے، لیکن ان کی بہترین اننگز نے ان کی صلاحیتیں واضح کی ہیں۔ ناصر کو کچھ تکنیکی غلطیوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے، لیکن ان کی دفاعی حکمتِ عملی اس شخص سے زیادہ اچھی ہے جس کے وہ متبادل ہیں، اور وہ بہترین جارحانہ کھلاڑی بھی ہیں۔ ناصر جمشید کی ٹیم میں شمولیت سے مصباح الحق کو خوش ہونا چاہیے، جنہوں نے اطلاعات کے مطابق کوشش کی تھی کہ اسپیشلسٹ اوپنر ابتدائی اسکواڈ کا حصہ بنیں۔ دوسری جانب آئی سی سی کی جانب سے سعید اجمل کو کلیئر کر دیے جانے کی خبر پر ٹیم مینیجمنٹ بشمول کپتان، نائب کپتان، اور پی سی بی سربراہ نے درست طور پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سہیل خان کی ممکنہ انجری نیا دروازہ کھول سکتی ہے، لیکن مینیجمنٹ ایک فاسٹ بولر کو سلو بولر سے تبدیل کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ 37 سالہ بولر جن کا نیا ایکشن آزمایا نہیں گیا ہے، شاید میدان میں فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بنیں۔ اس کے باوجود اجمل کا نہ ہونا پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔
1992 سے زیادہ خطرناک صورتحال؟
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ پاکستانی ٹیم کی موجودہ صورتحال جس میں ہم اپنے بہترین آل راؤنڈر (جو ہمارے اوپنر اور اچھے اسپنر بھی تھے)، اور ہمارے بہترین اسپنر، اور فاسٹ بولر کا کھونا وہی مشکلات ہیں جن کا سامنا ہم نے 1992 میں ورلڈ کپ جیتنے سے پہلے کیا تھا۔ہو سکتا ہے کہ یہ صرف ایک خوش فہمی ہو کہ تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ہماری موجودہ صورتحال کا موازنہ عمران خان کی جیت سے کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ سونامی کا آندھی سے موازنہ کیا جائے۔ بھلے ہی پاکستان ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے ہی وقار یونس کو کھو چکا تھا، لیکن اس کے باوجود عمران خان اور جاوید میانداد جیسے لیجنڈز موجود تھے۔کچھ ماہرین کا ایک غلط خیال یہ ہے کہ وسیم اکرم اور عاقب جاوید نے خود کو صرف 1992 کے ورلڈ کپ کے بعد منوایا۔ اگر دیکھا جائے تو دونوں پہلے سے ہی ثابت شدہ میچ جتوانے والے کھلاڑی تھے۔ 1989 میں آسٹریلیا کے خلاف وسیم اکرم کے 123 رن کون بھول سکتا ہے، اور 62 رنز دے کر 6، اور 98 رنز دے کر 5 وکٹیں حاصل کرنا اس کے علاوہ ہے۔ مجموعی طور پر 1992 سے پہلے انہوں نے 9 دفعہ 5 وکٹوں کا شکار کر چکے تھے۔اس کے علاوہ عاقب جاوید بھی 1992 سے پہلے سوئنگ بولنگ میں خود کو منوا چکے تھے۔ ہندوستان کے خلاف 37 رنز دے کر 7 وکٹیں اڑانا، بشمول ایل بی ڈبلیوز کی ہیٹ ٹرک کے، وہ ایک سال پہلے ہی کر چکے تھے۔بیٹسمینوں کی بات کی جائے تو رمیز راجہ اور عامر سہیل کے پاس اوپنرز کی حیثیت میں کافی تجربہ تھا۔ اسی طرح معین خان بھی کچھ عرصے سے ٹیم کا حصہ تھے۔ لیکن اس سب ٹیلنٹ کے باوجود پاکستان کی فتح میں خوش قسمتی کا بہت اہم کردار تھا۔مشتاق احمد اور انضمام الحق کے جیسے کچھ کھلاڑیوں نے صرف ٹورنامنٹ کے دوران ہی بہترین کارکرگدی کا مظاہرہ کیا، لیکن عمران خان کی زبردست پلاننگ کا بھی اس میں بہت کردار تھا۔لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو مشتاق اور انضمام کی بہترین کارکردگی کے ساتھ ساتھ اقبال سکندر اور زاہد فضل بھی تھے، جو تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے۔
دوسری جانب ہمارے موجودہ اسکواڈ کے کھلاڑی محمد عرفان، راحت علی، سہیل خان، یاسر شاہ، ناصر جمشید، صہیب مقصود، سرفراز احمد، اور دیگران ون ڈے ٹیم کا مستقل حصہ نہیں رہے ہیں اور ان کے کریڈٹ پر زبردست کامیابیاں بھی نہیں ہیں۔اگر 1992 میں مشتاق اور انضمام معجزہ ثابت ہوئے تھے، تو ہمیں اس دفعہ کم از کم بھی ایسے تین معجزے چاہیے ہوں گے۔
مصباح کو حکمتِ عملی تبدیل کرنا ہو گی
تمام مشکلات کے باوجود پاکستان کے پاس کپ گھر لانے کا ایک اچھا موقع ہے۔ یہ ٹورنامنٹ کے عجیب فارمیٹ کی وجہ سے ہے جس کی وجہ سے ایک ٹاپ ٹیم کو بھی انتہائی خراب کارکردگی دکھانی ہو گی تاکہ ناک آؤٹ مرحلے میں بھی نہ پہنچ پائے۔سات ٹیموں کے ہر پول میں سے چار کوارٹر فائنلز کے لیے کوالیفائی کریں گی۔ یہاں پاکستان کو صرف عرب امارات، زمبابوے اور آئرلینڈ کے خلاف بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اگر ہم ان کمزور ٹیموں میں سے ایک سے ہار بھی گئے، تب بھی چانس ہے کہ ہم ویسٹ انڈیز، ساؤتھ افریقہ، اور انڈیا کے خلاف جیت سکیں۔یہاں سے صرف تین ناک آؤٹ گیمز کی بات ہے۔ اگر پاکستان یہاں سے بحفاظت گزر گیا، تو پھر یہ کسی کو بھی چیلنج کر پائے گا۔اور ایسا کرنے کے لیے پاکستان کو قسمت، ٹیم کے درست امتزاج، اور مصباح الحق کی جانب سے کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہو گی۔
پاکستان کے باوقار کپتان کی محتاط قیادت نے ہمیں کچھ غیر متوقع ٹیسٹ فتوحات دلوائی ہیں، لیکن ہمارا ون ڈے ریکارڈ کافی ٹائم سے خراب ہے۔ ظاہر ہے اس کی ذمہ داری ٹیم پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ شاہد آفریدی کی جارحانہ کپتانی بھی اچھے نتائج دلوانے میں ناکام رہی ہے۔لیکن مصباح الحق کو یہ جاننا ہو گا کہ ان کی تکنیک میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کپتان آزمائے ہوئے ناکام لیکن تجربہ کار کھلاڑیوں کے ساتھ ہی گزارا کریں گے، جب تک کہ لگاتار شکستوں کے بعد ان پر تبدیلیاں نافذ نہ کر دی جائیں۔اور تب تک بیک اپ کھلاڑیوں کے پاس کافی کم پریکٹس ہو گی اور وہ حقیقی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
میچ ونر کون ہو سکتا ہے؟
پاکستان کے جیتنے کے لیے مصباح الحق کو ابھی سے ہی کوارٹر فائنلز کی تیاری شروع کر دینی چاہیے، اور یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ان کی ٹیم کوالیفائی کرے گی۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ ناک آؤٹ مرحلے تک پہنچنے سے پہلے پاکستان کے پاس درست میچ ونرز فارم میں ہونے چاہیئں۔ ان کھلاڑیوں کا انتخاب ابھی سے ہی ہو جانا چاہیے اور انہیں بٹھائے رکھنے کے بجائے کھلانا چاہیے۔یاسر شاہ: روایتی طور پر لیگ اسپنرز آسٹریلیا میں اضافی باؤنس کا مزا لیتے ہیں، اور یاسر شاہ کو گیارہ کھلاڑیوں کی فہرست سے باہر نہیں رکھنا چاہیے۔ انہوں نے آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میچز میں بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا، اور وہ اس دفعہ ہمارے نئے مشتاق احمد ہو سکتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے خلاف ان کے پہلے پریکٹس میچ میں انہوں نے کم رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں۔
صہیب مقصود: وہ ایک اچھے جارح بیٹسمین ہیں، جنہوں نے تمام فاسٹ بولرز بشمول ڈیل اسٹین کے خلاف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مقصود کے پاس ٹیم کو انفرادی طور پر میچ جتوانے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ انضمام الحق جیسی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔فواد عالم کی طرح مقصود کو بھی ایک عرصے تک نظرانداز کیا گیا ہے اور ان کے پرستار ٹیم میں ان کی شمولیت کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ 91 ناٹ آؤٹ کی ان کی میچ جتوانے والی پرفارمنس نے ہمیں بنگلہ دیش کے خلاف شرمناک شکست سے محفوظ رکھا۔ انسان صرف سوچ ہی سکتا ہے کہ اگر فواد عالم اور صہیب مقصود دونوں ساتھ ساتھ ہوتے، تو ہمارا مڈل آرڈر کتنا مضبوط ہوتا۔
وہاب ریاض: ایک کھلاڑی جنہوں نے اپنی غیر مستقل کارکردگی سے فینز کو مایوس کیا ہے لیکن یہی ہمارا ترپ کا پتہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ ریاض انتہائی تیز بالنگ کروا سکتے ہیں، اچھی بیٹنگ کر سکتے ہیں، اور ورلڈ کپ سیمی فائنل میں انڈیا کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔جیتنے کے لیے پاکستان کو پانچ مضبوط بولنگ آپشن درکار ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ وہاب ریاض کو اپنی آٹھ فرسٹ کلاس نصف سنچریوں کے ساتھ بیٹسمین کے طور پر سامنے آنا چاہیے جبکہ حارث سہیل کو بولر کی حیثیت سے۔
کوچ کی حیثیت سے وقار یونس اپنے کھلاڑیوں کو تیز بالنگ کروانے کے بجائے لائن اور لینتھ کا خیال رکھنے کا کہتے ہیں۔ ان کی حکمتِ عملی محمد سمیع پر کام نہیں کر سکی، جو رنز بھی دیتے رہے اور وکٹیں بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔پاکستان کا بولنگ اٹیک اس وقت کمزور لگ رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ وہاب ریاض کو انڈیا کے خلاف ان کی پرفارمنس کی ویڈیوز دکھائی جائیں اور انہیں اسی طرح توانائی دلائی جائے جیسے عمران خان نے وسیم اکرم کو دلائی تھی۔مجھے بہت خوشی ہو گی اگر یونس خان ٹورنامنٹ میں رنز کا ڈھیر لگائیں، لیکن 37 سال کا ہونے کے بعد بھی انہوں نے خود کو ون ڈے میں نہیں منوایا ہے۔اس بات کے کم امکانات ہیں کہ وہ اسکواڈ چھوڑیں گے۔ بنگلہ دیش کے خلاف پریکٹس میچ میں بھی وہ ناکام رہے، اور 41 بالوں پر صرف 25 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔جیتنے کے لیے مصباح کو ایک نئے زاویے سے سوچنا ہو گا۔ناتجربہ کار ٹیلنٹ کے ساتھ کھیلنا انڈیا کے خلاف پہلے گروپ میچ میں غیر متوقع نتائج لا سکتا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد چانس ہو گا۔عمران خان کے زخمی شیروں کی طرح کھیلنے کے لیے ہمارے کھلاڑیوں کو اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔