ایک صاحب واقعہ بیا ن کرتے ہیں کہ وہ ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا لیکن وہ خود خدا کو بھی نہیں مانتا تھا ۔بچپن سے پڑھائی میں لائق ، عام امریکی نوجونوں کے برعکس سنجیدہ علمی انسان ۔ محض 27 برس کی عمر میں پی ایچ ڈی کرکے یونیورسٹی میں پڑھانے لگا۔ اس کا نام جیفری لینگ
تھا پھر کیا ہوا کہ چالیس برس کی عمر کے بعد ایک بار بار آنے والے خواب سے متعلق عجیب وغریب واقعات کے بعداور بہت جستجو، تحقیق اور برسوں مطالعے کے بعد اسلام لے آئے ۔ اسلام لا چکے تو نمازوں کی فکر ہوئی ۔سب نمازیں وقت پہ ہوتیں مگر فجر کا معاملہ ٹیڑھا تھا ۔46 برس سے سات بجے اٹھنے کی عادت تھی ۔پانچ بجے کیسے جاگتے ؟ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ : “میں نے الارم والی گھڑیاں لیں ۔ ایک گھڑی سب سے پہلے وقت پر الارم لگا کر سرہانے کے میز پر رکھی ہوتی ۔ دوسری پانچ منٹ بعد کے الارم پر سیٹ کر کے چند قدم دور ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھی ہوتی تیسری واش روم کے دروازے کی دہلیز پر ۔ پہلا الارم سوئے سوئے ہاتھ مارنے سے بند ہو جاتا ، دوسرے کو بستر سے نکل کر بند کر کے واپس آکر لیٹ جاتے ، تیسرے الارم پہ واش روم کے دروازے تک چل کر جانے سے نیند اڑ جاتی اور اکثر وقت پہ وضو بھی ہو جاتا اور نماز بھی ۔” میں نے یہ کتاب بار بار پڑھی ، ہر بار مجھے خود پر اپنی نادانی پر رونا آیا ۔ اسلام کی
جس نعمت کو ڈاکٹر جیفری لینگ نے اتنے سالوں کی جدو جہد کے بعد حاصل کیا ، وہ ہماری جھولی میں اللہ تعالی نے پہلے سانس سے پہلے ہی ڈال دی تھی کہ ہمارے والدین الحمد للہ مسلمان ہیں ۔ فجر کی نماز کی جس نعمت کو پانے کے لیے ڈاکٹر جیفری کو اتنی محنت کرنا پڑی ہمارے لیے
وہ نعمت روز بانہیں پھیلائے دہلیز پہ آتی ہے ۔ ڈاکٹر جیفری کو جگانے والا کوئی نہ تھا ، ہمارے والدین، باری باری محبت سے ہمیں جگانے آتے ہیں۔ ڈاکٹر جیفری کے علاقے میں کوئی مسجد نہ تھی کہ اذان کی آواز سے آنکھ کھلتی۔ہمارے گھر کے پاس بہت ساری مسجدیں ہیں جن کے موذن باری باری پکارتے ہیں :الصلوہ خیر من النوم،الصلوہ خیر من النوم ! نماز نیند سے بہتر ہے،نماز نیند سے بہتر ہے !مگر عجیب بات ہے کہ ہمارے لیے فجر کی نماز بہت مشکل ہے !!!!