ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

شادی میں دیرکیوں

datetime 11  فروری‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آ ج سے تقریباً پندرہ سال پہلے معاشرے کا جو رجحان تھا،اس کے مطابق جس لڑکی کی شادی پچیس سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی تو ایسی شادی کو بروقت گردانا جاتا،پچیس کی عمر کا ہندسہ عبور کرنے کا یہ مطلب لیا جاتا کہ لڑکی کے رشتہ میں دیر ہوگئی ہے،اس سے پہلے کا معلوم نہیں لیکن ہوسکتا ہے کہ دیری کا یہ پیمانہ تین چار سال پہلے تصور کیا جاتا ہو۔

پھر سات آٹھ سال پہلے یہ صورتحال ہوئی کہ تیس سال کی عمر سے پہلے پہلے لڑکی کی شادی بروقت قرار دیے جانے لگی،یعنی محض سات آٹھ سال میں پانچ سال کا فرق آگیا،اب بھی ایسے معاملات ہیں کہ اکثر گھروں میں لڑکیوں کی عمریں تیس سے چالیس کے درمیان ہوچکی ہیں لیکن یہ رشتہ میں دیری کا رجحان ہمارے معاشرے میں ایسی خاموش دراڑیں ڈال رہا ہے جو معاشرتی ڈھانچے کے زمین بوس ہونے کا پیش خیمہ ہیں، لیکن حیف کہ اس کا عملی ادراک معاشرے کے چند لوگوں کو بھی نہیں،آئیں اس دیری کی وجوہات کا تعین کرنے کی کوشش کرتے ہے۔پہلی وجہ،لڑکوں کا تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جانا اور لڑکیوں کا اس میدان میں آگے نکل جانا ہے،پچھلے کئی سالوں کے بورڈ امتحانات کے نتائج اس بات کے شاہد ہیں،اس کی وجہ سے تعلیم کے لحاظ سے ہم پلہ رشتہ ملنا انتہائی مشکل ہوچکا ہے،شہروں میں کچھ سالوں سے لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے پی ایچ ڈی کے رجحان نے اس کو اور مشکل بنا دیا ہے۔دوسری وجہ،اچھی تعلیم حاصل ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کو روزگار کے مواقع نسبتاً آسانی سے مل جاتے ہیںاس کے دو اثرات سامنے آئے ہیں۔ایک،والدین کا ان لڑکیوں پر مالی انحصار کرنا شروع ہوجانا۔دو،نوکریوں کے لحاظ سے ہم پلہ رشتے نہ ملنا۔تیسری وجہ،کچھ والدین کا اس معاملہ میں بالکل ہل جل نہ کرنا ہے۔

لڑکیوں کی عمریں اٹھائیس اٹھائیس سال ہو جاتی ہیں لیکن انھیں کم عمر ہی تصور کیا جاتا ہے،ایک زمانہ تھا کہ اٹھارہ بیس کی عمر میں مائیں رشتوں کی تلاش میں سرگرداں ہو جایا کرتی تھیں۔چوتھی وجہ،جس لڑکی کی عمر تیس سال سے اوپر ہو جاتی ہے اس کےلئے عمر کے لحاظ سے رشتے مشکل ہوجاتے ہیں کیونکہ اکثر لڑکے والے کم عمر لڑکی کی تلاش میں ہوتے ہیں۔پانچویں وجہ،لڑکے والوں کے ازحد نخرے ہیں۔

اول تو کوئی لڑکی لڑکے کی ماں بہن کو بھاتی نہیں،فقط کھانے پینے سے لطف اندوز ہونا ہی شاید مقصد ہوتا ہے،اگر کوئی لڑکی پسند آبھی جائے تو پھر فرمائشوں اور رسوم و رواج کے نام پر لڑکی والوں کا مکمل استحصال کیا جاتا ہے،ہمارے ایک ایسے دوست ہیں جن کے گھر والوں نے بیاسی جگہ ان کا رشتہ دیکھا پھر ایک جگہ ہاں کی،کچھ عرصہ بعد وہاں سے رشتہ توڑنے لگے تو ان دوست نے انکار کر دیا کہ میں مزید تماشا نہیں دیکھ سکتا۔

چھٹی وجہ،شہروں میں ایک عجیب وجہ سامنے آئی ہےلڑکی کے والدین لڑکے میں وہ تمام کامیابیاں دیکھنا چاہتے ہیں جو پچاس سال کی عمر میں حاصل ہوتی ہیں،مکان اپنا ہو گاڑی پاس ہو تنخواہ کم ازکم اتنی ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔میں اپنے ایک انجینئر دوست کا رشتہ کروانے کی کوشش میں تھا لڑکا لائق فائق خوش شکل نوکری اچھی،لڑکی کی ماں کو بہت پسند تھا لڑکے والے بھی راضی تھے لیکن اچانک لڑکی کے والدین نے انکار کر دیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ لڑکے کے پاس اپنا مکان نہیں۔

وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے،اب ایسے رویوں کا کیا کیا جائے؟کیا یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف نہیں۔ساتویںوجہ،خاندانوں کے اندر ایک عجیب و غریب وجہ دیکھنے میں آرہی ہے ہر ماں اپنی بیٹی کا رشتہ خاندان میں بخوشی کرنے پر راضی ہے لیکن جب اپنے بیٹے کا معاملہ آتا ہے تو خاندان کی سب لڑکیوں پر ناک بھوں چڑھا لیا جاتا ہے اور بڑے طمطراق اور فخر سے خاندان سے باہر کی لڑکی لائی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ مزید وجوہات بھی ہونگی ،وجوہات جو بھی ہوں لیکن یاد رہے کہ اس سے ہمارا معاشرتی نظام درہم برہم ہورہا ہے اورہماری نوجوان نسل بروقت شادی نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا کی پھیلائی ہوئی بےحیائی کا بآسانی شکار ہورہی ہےاور جو محفوظ ہے وہ اپنے ساتھ ایک خاموش نفسیاتی جنگ کا شکار ہےمغرب تو اس طرز سے اپنے آپ کو برباد کرچکا اور ان کی آبادی اب ریورس گیئر میں چل رہی ہےلیکن ہم جانتے بوجھتے خود اس گڑھے میں گر رہے ہیں اور وہ بھی ہنستے مسکراتے اور ہم سب اس اجتماعی خرابی اور زوال کے ذمہ دار ہیں۔

صد افسوس کشتی ڈوب رہی ہے اور کشتی کے ملاح اور مسافر بے نیازاگر ہم نے بچوں کی بلوغت کے فوراً بعد شادی کو رواج نہ دیا اگر ہم نے دوسری تیسری اور چوتھی شادی کو لعنت سمجھنے کے کفر سے توبه نہ کی ،اگر ہم نے مطلقہ خواتین اور بیواؤں کی فوری اور آسان شادیوں کا بندوبست نہ کیا،اگر ہم نے نکاح کو کاروبار کے بجائے فرض کا درجہ نہ دیا،اور جتنا کہ نہا دھو کر مسجد میں جا کے جمعہ پڑھنا آسان ہےاسے بھی اتنا ہی آسان نہ بنایا۔

اگر ہم نے زنا کی طرف جانے والے راستوں کا سدباب نہ کیا اور اسے موجودہ حالات میں اتنا ہی مشکل نہ بنایا جتنا کہ دوسری شادی مشکل ہےتو ریپ کے مجرم دندناتے رہیں گے جبکہ بغیر اجازت دوسری شادی والے سلاخوں کے پیچھے ہونگےتو گھروں میں بیٹیوں کیلئے رشتوں کی بجائے دوستی کے پیغام آیا کرینگےتو بیٹیاں پھولوں سے سجی گاڑی میں حجلہ عروسی کی بجائے تاریک شیشوں والی کار میں ڈیٹ پر جایا کرینگی

تو بیٹے شادیوں کی بجائے افیئرز اور بیویوں کی بجائے گرل فرینڈز رکھا کرینگےتو شوہر اپنے دفتروں میں معاشقے چلاتے رہیں گے،اور نیو ایئر نائٹ ویلنٹائین ڈے ہیلوئین اور چاند رات جیسے تہوار جنسی ہوس کی تسکین کی علامات بنے رہینگے۔واللہ یہ آگ ہر اس گھر میں پہنچے گی جو دین فطرت کے اٹل قانون سے منہ موڑے گا اور وہ وقت آ کر رہے گا جب اس مقدس سرزمین پر بھی ولدیت کے خانے میں لکھا نام مشکوک ہو جائے گا(نعوذباللہ من ذالک)وصی خان

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…