عطاء اللہ شاہ بخاریؒ برصغیر پاک و ہند کے نامور عالم‘ خطیب اور سیاسی رہنما تھے‘ اللہ تعالیٰ نے شاہ صاحب کو بیان اور تاثیرکی قوت ودیعت کر رکھی تھی‘ وہ بولتے نہیں تھے وہ سناروں کی طرح نقش گھڑتے تھے اور سننے والوں کے زیور احساس پر کنندہ کر دیتے تھے‘ لوگ ان کے دیوانے تھے‘ زائرین دو‘ دو دن کا کھانا باندھ کر شاہ صاحب کا خطاب سننے آتے تھے اور شاہ جی بھی دو‘ دو دن بولتے رہتے تھے‘
نمازوں اور کھانے کا وقفہ ہوتا تھا اور خطاب دوبارہ شروع ہو جاتا تھا‘ شاہ صاحب ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے‘ وہ چاہتے تھے ہندو اور مسلمان مل کر انگریزوں کو نکالیں اور اس کے بعد بھائی بھائی بن کر اکٹھے رہیں‘ وہ اپنے خطبات میں اپنے ان خیالات کا برملا اظہار کرتے رہتے تھے مگر لوگ خطاب ان کا سنتے تھے اور ووٹ قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ کو دیتے تھے چنانچہ شاہ صاحب کی بھرپور مخالفت کے باوجود پاکستان بن گیا‘ شاہ صاحب نے پاکستان ہجرت کی اور پاکستان میں اقامت اختیار کرلی‘ وہ ملتان میں آباد ہو گئے‘ ملتان میں ایک بار کسی نے ان سے پوچھا لیا ’’ شاہ جی آپ پاکستان کے مخالف تھے لیکن آپ پاکستان ہی میں آباد ہیں‘ کیوں؟‘‘ شاہ صاحب نے کیا خوب جواب دیا‘ فرمایا ’’ آپ کا بیٹا کسی خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہو‘ آپ کو رشتہ منظور نہ ہو‘ آپ رشتے کی بھرپور مخالفت کریں لیکن آپ کا بیٹا اس مخالفت کے باوجود شادی کر لے تو آپ کو اس کے بعد کیا کرنا چاہیے؟‘‘ شاہ صاحب نے اس کے بعد فرمایا ’’ رشتے کے بعد وہ خاتون آپ کی بہو ہوگی‘ آپ کو اسے بہو بھی ماننا چاہیے اور اسے بہو کی عزت بھی دینی چاہیے‘‘ شاہ صاحب نے فرمایا ’’ میں پاکستان کا مخالف تھا لیکن پاکستان میری مخالفت کے باوجود بن گیا‘یہ اب میرا ملک ہے
اور میں اس کی اتنی ہی عزت کرتا ہوں جتنی اس ملک میں رہنے والے دوسرے لوگ کرتے ہیں‘‘ یہ دلیل شاہ صاحب کی عظمت اور اعلیٰ ظرفی کی نشانی تھی ورنہ اس ملک میں ایسے لوگ اور ان کی پارٹیاں آج بھی موجود ہیں جنہوں نے قیام پاکستان سے قبل پاکستان کی مخالفت کی‘جو پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے شہری بنے‘ پوری زندگی ملکی وسائل سے لطف اٹھایا لیکن یہ آج بھیملک کی مخالفت کر رہے ہیں‘ یہ آج بھی پاکستان کے خلاف ہیں
۔مجھے چند دن قبل ایک دوست نے عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کا ایک انتہائی خوبصورت قول ایس ایم ایس کیا‘ مجھے جب سے یہ قول موصول ہوا‘ میں اس وقت سے سرشاری کے عالم میں ہوں اور میں جھولی پھیلا کر شاہ صاحب کو دعائیں دے رہا ہوں‘ شاہ صاحب نے فرمایا ’’ میں پوری زندگی دو لوگوں کو تلاش کرتا رہا لیکن مجھے یہ دو لوگ نہیں ملے‘ایک وہ شخص جو صدقہ کرتا ہو لیکن اس کے باوجود مفلس ہو اور دوسرا وہ شخص جس نے ظلم کیا ہو
اور وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ گیا ہو‘‘ یہ قول صرف قول نہیں بلکہ یہ مکمل ضابطہ حیات ہے‘ آپ زندگی میں اگر صرف ان دو اصولوں کو پلے باندھ لیں‘ آپ صدقہ کریں اور ظلم سے بچیں‘ آپ شاندار اور مطمئن زندگی گزاریں گے ‘ آپ یقین کریں آپ اگر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو آپ خواہ کتنے ہی امیر کیوں نہ ہو جائیں‘آپ پوری زندگی مفلس رہتے ہیں‘ آپ کے ہاتھ ہمیشہ دوسروں کے سامنے پھیلے رہتے ہیں
اور آپ اگر ظالم ہیں تو آپ خواہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہو جائیں‘ آپ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے‘ یہ میری زندگی کا تجربہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی۔ میں ملک کے درجنوں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن کی شہرت اچھی نہیں‘ جن کے کام دھندے غلط ہیں‘ مصیبتیں پوری طاقت سے ان کی طرف دوڑتی ہیں‘ پولیس انہیں گرفتار کرنا چاہتی ہے‘حکومت ان کے خلاف پوری ریاستی طاقت استعمال کرتی ہے‘ ان کے خلاف قانون بن جاتے ہیں‘
جج ان کے خلاف فیصلے لکھ دیتے ہیں‘ ان کے لئے جیلیں تیار ہو جاتی ہیں اور ان کے وارنٹ جاری ہو جاتے ہیں لیکن وہ عین وقت پر بچ جاتے ہیں‘دنیا بھر کی مصیبتیں ان کے قریب سے گزر جاتی ہیں‘ آپ ذرا سی تحقیق کریں‘ آپ کو معلوم ہو گا ان میں سینکڑوں عیب ہیں لیکن یہ عیبوں کے باوجود کھلے دل سے صدقہ اور خیرات کرتے ہیں‘ان کا دستر خوان وسیع ہے‘ یہ ہر ماہ درجنوں بیواؤں‘ یتیموں‘ بے آسراؤں‘ بیماروں اور بے کسوں کی مدد کرتے ہیں‘
یہ مدد انہیں مصیبتوں سے بھی بچاتی ہے اور ان کی دولت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔بزرگ بتاتے ہیں‘ ایک فقیر نے ایک بزرگ کے سامنے دست سوال دراز کیا اور ساتھ ہی دعا دی اللہ تعالیٰ تمہیں بادشاہ بنائے‘ بزرگ نے اس سے پوچھا ’’ کیا تم بادشاہ بننا چاہتے ہو‘‘ فقیر نے حیران ہو کر جواب دیا’’ جناب میں نسلوں کا فقیر‘ میں کیسے بادشاہ بن سکتا ہوں‘‘ بزرگ نے کہا ’’ چلو ہم ایک تجربہ کرتے ہیں‘ میں تمہیں بادشاہ بنانے میں کامیاب ہو گیا
تو تم مجھے حج کرواؤ گئے اور میں اگر ناکام ہو گیا تو میں پوری زندگی تمہاری کفالت کروں گا‘‘ فقیر مان گیا‘ بزرگ نے اس سے کہا ’’ تمہاری جیب میں کتنے پیسے ہیں‘‘ فقیر نے پیسے گنے‘ وہ تیس روپے تھے‘ بزرگ نے اسے مٹھائی کی دکان پر بھیجا‘تیس روپے کی جلیبیاں منگوائیں‘ سامنے بے روزگار مزدور بیٹھے تھے‘ بزرگ نے اسے حکم دیا ’’ تم یہ جلیبیاں ان مزدوروں میں تقسیم کر دو‘‘ فقیر گیا اور جلیبیاں مزدوروں میں بانٹ آیا‘
بزرگ نے اسے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا اور حکم دیا ’’ تم گھر چلے جاؤ‘ تیس دن انتظار کرو اور دیکھو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا پیغام آتا ہے‘‘فقیر چلا گیا‘ وہ تیسرے دن دوڑتا ہوا بزرگ کے پاس آیا‘ وہ خوشی سے چھلانگیں لگا رہا تھا‘بزرگ نے وجہ پوچھی‘فقیر نے بتایا ’’ مجھے پچھلے مہینے ایک کلرک نے بھیک میں پرائز بانڈ دیا تھا‘ میں نے وہ بانڈ سنبھال لیا‘ آج وہ بانڈ نکل آیا‘ میں بیٹھے بٹھائے تین لاکھ روپے کا مالک بن گیا‘‘
بزرگ مسکرائے اور اس سے کہا ’’یہ بانڈ تمہارا نہیں‘ اس کا مالک وہ ہے جس نے تمہیں یہ بانڈ دیا تھا‘ تم بانڈ کے مالک کو تلاش کرو‘ یہ رقم اسے واپس کر دو اورانتظار کرو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا پیغام آتا ہے‘‘فقیر کو یہ آئیڈیا بہت برا لگا لیکن اس کے باوجود اس نے کلرک کو تلاش کیا اور بانڈ لے کر اس کے پاس پہنچ گیا‘ کلرک فقیر کی ایمانداری پر حیران رہ گیا‘ وہ فقیر کے ساتھ دفتر سے نکلا‘ ڈی سی آفس گیا‘
وہاں کنسٹرکشن کمپنی رجسٹر کرائی‘ فقیر کو پچاس فیصد کا حصہ دار بنایا اور سرکاری ٹھیکے لینا شروع کر دیئے‘ وہ دونوں مل کر کام کرتے تھے‘ کلرک ٹھیکہ لیتا تھا اور فقیر کام کرواتا تھا‘ یہ کمپنی مزدوروں کو تین وقت کا کھانادیتی تھی‘ کمپنی چل پڑی‘ کلرک اور فقیر دونوں امیر ہو گئے‘ یہ دونوں بزرگ کو ہر سال حج پر بھجواتے تھے اور شام کے وقت فقیروں کو روک کر انہیں بادشاہ بننے کا نسخہ بتاتے تھے‘ یہ کمپنی آج بھی قائم ہے‘
اس میں اب کلرک اور فقیر کے بچے کام کرتے ہیں‘یہ کمپنی تیس روپے کے صدقے سے شروع ہوئی‘ یہ اب تک درجنوں لوگوں کو بادشاہوں جیسی زندگی دے چکی ہے‘ میں ذاتی طورپر ایسے بیسیوں لوگوں سے واقف ہوںجو جاہل بھی ہیں‘ نالائق بھی اور غیر محتاط بھی لیکن ان پر اللہ تعالیٰ کا کرم برستا رہتا ہے‘ میں نے جب بھی تحقیق کی‘ مجھے اس کرم کے پیچھے ہمیشہ صدقہ اور خیرات ملی‘ یہ دل کے سخی اور ہاتھ کے کھلے ہیں‘
میں نے ایک اور چیز بھی مشاہدہ کی‘ انسان اگر صدقہ کرے اور ساتھ ہی عاجزی اختیار کر لے تو دولت بھی ملتی ہے اور عزت بھی کیونکہ جس طرح خوش حالی کا تعلق صدقے سے ہے بالکل اسی طرح عزت عاجزیسے وابستہ ہے‘ آپ جتنا جھکتے جاتے ہیں آپ کی عزت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے‘ آپ اس معاملے میں اولیاء کرام کی مثال لے لیجئے‘ اولیاء کرام میں عاجزی ہوتی ہے چنانچہ ان کے مزارات ہزار ہزار سال تک آباد رہتے ہیں‘
یہ کھلے دل اور فراخ ہاتھ بھی ہوتے ہیں چنانچہ ان کے درباروں پر ان کے انتقال کے بعد بھی لنگر چلتے ہیں اور بادشاہ مال و متاع لے کر ان کی درگاہ پر حاضر ہوتے رہتے ہیںہم اب ظلم کی بات کرتے ہیں‘ میرے بزرگ دوست شیخ عبدالحفیظ راولپنڈی کے ایک ریلوے ملازم کی بات سنایا کرتے ہیں‘ یہ صاحب راولپنڈی میں رہتے تھے‘ ملتان میں کوئی شخص قتل ہوا مگر پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر لیا اور اس پر قتل کا مقدمہ قائم ہو گیا‘
وکلاء اور جج جانتے تھے یہ بے گناہ ہیں لیکن وہ صاحب کہتے تھے مجھے ہر صورت سزائے موت ہو گی‘ یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی‘عدالت نے اسے سزائے موت سنا دی‘ دوست اس سے ملاقات کیلئے گئے ‘ اس سے یقین کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا ’’ مجھے یہ سزا ملتان کے قتل کی نہیں ملی‘ میں گوجرانوالہ کے قتل کی سزا بھگت رہا ہوں‘‘ دوستوں نے تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا ’’ میں پاکستان بننے کے وقت ریلوے میں ٹی ٹی تھا‘
بھارت سے مہاجرین کی ٹرینیں آ رہی تھیں‘ میں نے امرتسر سے ایک ٹرین بھری‘ ٹرین چلی تو مجھے سٹیشن پرایک خوبصورت لڑکی دوڑتی ہوئی نظر آئی‘ میں نے ہاتھ باہر نکال کر اسے پکڑا اور ٹرین میں سوار کر لیا‘ میں نے اسے اپنے ڈبے میں بٹھا لیا‘ وہ نئی نویلی دلہن تھی‘ فساد میں اس کا سارا خاندان مارا گیا مگر وہ جان بچا کر گرتے پڑتے سٹیشن پہنچ گئی‘ میری ٹرین نے امرتسر سے لاہور اور لاہور سے راولپنڈی آنا تھا‘
میں نے اسے راولپنڈی تک کیلئے اپنے ڈبے میں پناہ دے دی‘ہم لاہور سے نکلے تو میری نیت خراب ہو گئی‘میں نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی‘ وہ نہ مانی‘ میں نے اس کے ساتھ زبردستی شروع کر دی‘ لڑکی شاک میں چلی گئی‘ اس نے دروازہ کھولا اور ٹرین سے باہر چھلانگ لگا دی‘ وہ ٹرین کے نیچے آ کر مر گئی‘ میں اس دن سے احساس گناہ کا شکار ہوں‘ میں اس کا قاتل ہوں اور مجھے یقین تھا
میں کبھی نہ کبھی اس قتل کی سزا ضرور بھگتوں گا اور مجھے آج وہ سزا مل گئی‘ میں پھانسی چڑھ رہا ہوں‘‘۔میری آپ سے درخواست ہے‘ آپ صدقہ دیں‘ عاجزی اختیار کریں اور ظلم سے بچیں‘ اللہ تعالیٰ آپ پر خوشحالی‘ عزت اور پرامن زندگی کے دروازے کھول دے گا‘ یہ راز حیات ہے۔