مجید نظامی مرحوم پاکستانی صحافت کا ایک ایسا تابندہ ستارہ ہے جس نے وطن عزیز میں اقتدار کے ایوانوں اور ڈرائنگ روموں میں بنتی ، اترتی کئی حکومتوں کے دور گزارے۔ ماہنامہ قومی ڈائجسٹ میں جنرل ضیا الحق کے حوالے سے شائع ان کی ایک تحریر سے لئے گئے اقتباسات نذر قارئین ہیں۔29مئی 88ءکو اپنے ہاتھوں ہی عطا کردہ سسٹم کو ختم کرنے کے بعد جنرل ضیا الحق نے
جون کے پہلے ہفتے میں مجھے مری میں طلب کیا، ان کے اصرار پر میں نے پنڈی سے مری تک اپنی گاڑی کی بجائے پریذیڈنٹ ہاؤس کی گاڑی میں سفر کیا، مری کے پریذیڈنٹ ہاؤس میں وہ اسی دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ مجھے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ یہ ملاقات خاصے عرصے کے بعد ہوئی تھی بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس طرح کی پرائیویٹ ملاقات برسوں بعد ہوئی تھی، اس دوران میرے اور ان کے ذاتی تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے، ان کی پالیسیوں پر مری زبانی اور اخباری نکتہ چینی کو وہ ناپسند کرنے لگے تھے لیکن انہوں نے اظہار ناپسندیدگی یوں کیا کہ مجھ سے پرائیویٹ ملاقاتیں بند ہو گئیں اس کے علاوہ اور کوئی ”انتقامی“ کارروائی انہوں نے نہیں کی ۔ایک دفعہ ہم نے ضیاءالحق سے گروپ انٹرویو کیلئے وقت مانگا تو انہوں نے شرط عائد کر دی کہ نظامی صاحب خود ساتھ آئیں گے، میں چلا گیا۔ جب انٹرویو مکمل ہوا تو ضیاءصاحب نے کہا نظامی صاحب آپ نے سوال نہیں کیا، میں نے کہا انٹرویو مکمل ہو گیا ہے تو بس ٹھیک ہے، لیکن وہ اصرار کرنے لگے کہ آپ بھی سوال کریں تو میں نے کہا جنرل صاحب ”ساڈی جان کدوں چھڈو گے“مری کی اس ملاقات میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ اپنے وزیر اعظم کی برطرفی کے پس منظر سے مجھے آگاہ کیا اور اس سلسلے میں آئندہ تعاون کیلئے کہا۔ میرا جواب حسب معمول وہی تھا
”آپ جو اچھا کام کریں گے ہم اس کی حمایت کریں گے اور آپ کے جس اقدام سے ہمیں اتفاق نہیں ہو گا اس سے اختلاف نہ کرنا ہمارے لیے بڑا مشکل ہے“۔ان کی آخری بریفنگ اس جولائی میں تھی۔ اس موقع پر بھی انہوں نے اپنے غیر جماعتی فلسفے پر زور دیا اور کہا کہ ”میرا بس چلے تو میں مزید چار پانچ انتخابات بھی غیر جماعتی بنیادوں پر کراؤں گا“۔ میں نے پوچھا اپنی زندگی ہی میں؟
وہ کچھ گھبرا کر فرمانے لگے ”ہاں اگر اللہ تعالیٰ نے دی اور اس کے بعد ہفتہ دس دن کے اندر وہ ہوائی جہاز کے حادثے میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ رہے نام اللہ کا!جہاں تک ان کے ذاتی اوصاف کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی قسم آپ ہی تھے۔ ان کا تعلق مڈل کلاس سے تھا۔ گیارہ سال کی حکومت کرنے کے باوجود ان کے طور طریقوں میں بظاہر کوئی فرق نہ آیا۔
آج تک ان کے بارے میں کوئی ایسی حرف گیری پڑھنے، سننے میں نہیں آئی اور نہ ہی ان کے کسی بڑے سے بڑے، سیاسی دشمن نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کوئی ناجائز مال بنایا تھا۔ وہ پابند صوم و صلوٰة تھے اور انہوں نے اپنے طرز عمل سے اس کی تلقین و تبلیغ بھی کی کہ مسلمان شعائر اسلام پر بھی عمل کرے۔ ان کی زندگی میں ان کی اولاد کو بھی کسی نے حکمرانوں کی اولاد جیسے کروفر کے ساتھ چلتے پھرتے نہیں دیکھا۔ ان کے کئی سیاسی خیالات سے شدید اختلاف کے باوجود میرا یہ خیال ہے کہ ذاتی طور پر ان جیسا آدمی کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہیں اتنا بڑا تاریخی جنازہ نصیب ہوا کہ ان کا سفر آخرت دیدنی تھا۔