’’حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا کہیں سے گزر رہی تھیں، آپ نے دیکھا وہاں ایک شخص جنت کا ذکر کر رہا ہے آپ وہاں رُک گئیں اور کہا میاں خدا سے ڈرو، تم کب تک بندگانِ خدا کو خدا کی محبت سے غافل رکھو گے، تم کو چاہیے کہ پہلے اُنہیں خدا سے محبت کی تعلیم دو اور پھر جنت کا شوق دلائو۔اس شخص نے حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا کی یہ باتیں سنی تو ناک چڑھائی اور غصے سے کہا اے دیوانی !جا اپنا راستہ لے۔
آپ نے فرمایا میں دیوانی نہیں البتہ تُو دیوانہ ضرور ہے کہ راز کی بات نہ سمجھ سکا۔ ارے جنت تو قید خانہ ہے اور مصیبت کا گھر ہے اگر وہاں اللہ کا قرب میسر نہ ہو۔ کیا تم نے حضرت آدم علیہ السلام کا حال نہیں سنا کہ جب تک ان پر خدا کا سایہ رہا کیسے آرام سے جنت میں میوہ خوری کرتے رہے اور جس وقت ان سے خطا سرزد ہوگئی اور شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا تو خدا کی شفقت کا سایہ اُٹھ گیا تو وہی جنت حضرت آدم علیہ السلام کے لئے قید خانہ اور مصیبت کا گھر بن کر رہ گئی پھر فرمایا کہ کیا تمہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حال معلوم نہیں کہ جب وہ محبتِ الٰہی میں پوراُ ترے جب وہ آگ میں ڈالے گئے تو وہ آگ ان کے لئے جنت و عافیت بن گئی پس پہلے جنت کے مالک سے محبت پیدا کرو پھر جنت میں جانے کی آرزو کرو۔ اس جنت میں جا کر کیا کرو گےجہاں تم پر اللہ تعالیٰ کا سایہ نہ ہو۔ اگر جنت کسی مشتاق کو ملے اور وہاں دیدارِ الٰہی نصیب نہ ہو تو ایسی جنت کس کام کی اور اگر عاشقوں کو دوزخ ملے مگر وہاں دیدار الٰہی نصیب ہو تو ایسی دوزخ اس طرح کی جنت سے لاکھ درجے بہتر ہے، اسے شوق سے لے لو دنیا و مافیہا میں اور ساری کائنات میں اگر کچھ ہے تو وہ عشقِ الٰہی ہے۔‘‘