شریک سے روایت ہے کہ ہم ایک جنازہ کے ساتھ جا رہے تھے۔ ہمارے ساتھ سفیان ثوری، ابن شبرمہ، ابن ابی لیلیٰ، ابو حنیفہؒ، ابو الاحوص، مندل اور حبان بھی تھے۔ جنازہ ایک سید زادے کا تھا۔ جنازہ میں کوفہ کے بڑے بڑے لوگ موجود تھے۔ سب ساتھ چل رہے تھے کہ اچانک جنازہ رک گیا۔ لوگوں نے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اس لڑکے کی ماں بیتاب ہوکر نکل پڑی۔
جنازہ پر اپنا کپڑا ڈال دیا اور اپنا سر کھول دیا۔ عورت شریف خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اس میت کے باپ نے چلا کر کہا واپس جاؤ مگر اس نے واپس ہونے سے انکار کر دیا۔ باپ نے قسم کھا لی کہ’’ لوٹ جاؤ ورنہ تجھے طلاق۔ ‘‘جب کہ ماں نے بھی قسم کھا لی کہ’’ اگر میں نماز جنازہ سے پہلے لوٹوں تو میرے سارے غلام آزاد۔الغرض لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مشغولِ کلام ہو گئے اب کیا ہو گا؟ کوئی جواب دینے والا نہیں تھا۔ میت کے باپ نے امام ابو حنیفہؒ کو آواز دی کہ میری مدد کرو۔ امام صاحبؒ آئے اور عورت سے معلوم کیا کہ قسم کس طرح کھائی؟ اس نے بتلادیا۔ باپ سے پوچھا تم نے کس طرح قسم کھائی؟ اس نے بھی بتلا دیا۔امام صاحبؒ نے فرمایا میت کا سریر رکھو۔ چنانچہ رکھ دیا گیا۔ امام صاحبؒ نے باپ کو حکم دیا کہ نماز جنازہ پڑھاؤ جو لوگ آگے نکل گئے تھے، واپس ہوئے باپ کے پیچھے صف لگی نماز جنازہ پڑھی گئی۔ امام صاحبؒ نے فرمایا قبر کی طرف لے جاؤ اور اس کی ماں سے کہا اب تم گھر چلی جاؤ۔ قسم پوری ہو گئی اور باپ سے کہا تمہاری بھی قسم پوری ہو گئی تم بھی گھر جاؤ۔ اس پر ابن شبرمہؒ کہنے لگے عورتیں آپ جیسا پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔ علمی نکات بیان کرنے میں آپ کو نہ کوئی مشقت ہوتی ہے اور نہ پریشانی۔