جمعہ‬‮ ، 15 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

قبول اسلام کے تین حیرت انگیزواقعات ، علامہ محمداقبال کی زبانی

datetime 3  جنوری‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

علامہ اقبال نے زندگی کے آخری ایام میں اپنے ایک عزیز کو قبول اسلام کے واقعات جمع کرنے اور کتاب ترتیب دینے کا مشورہ دیا اور پھر خود ہی دو نہایت مؤثر واقعات بھی سنائے ’’بمبئی میں کسی خوش حال مسلمان نے اپنے حلقہ تعارف کے کچھ اونچے لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا۔ ان میں ایک عیسائی انگریز بھی تھا۔

دستر خوان پر طرح طرح کے کھانے چنے ہوئے تھے اور قاب میں پلاؤ بھی تھا ‘عیسائی انگریز نے پلاؤ نہایت شوق سے کھایا۔ کھانے سے فارغ ہوگئے اور گفتگو چھڑی تو انگریز عیسائی نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ صاحب خانہ سے درخواست کی کہ مجھے کلمہ توحید پڑھا کر دائرہ اسلام میں شامل کر لیجئے۔ صا حب خانہ حیران تھے عام قسم کی دعوت میں کس چیز نے انگریز کے دل کی دنیا بدل دی۔ اس نے حیرت و مسرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سوال کیا‘ آپ کو کس چیز نے اس وقت متاثر کیا؟ ’’پلاؤ نے۔۔۔پلاؤ کھاتے وقت میرے ذہن نے یہ سوچا کہ جس قوم کا ذوق کھانے کے معاملے میں اتنا اچھا اور اونچا ہے‘ دین کے معاملے میں اس کا ذوق کتنا حسین اور بلند ہوگا۔چنانچہ میرے دل نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا۔‘‘ انگریز نے جواب دیا۔ حاضرین کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوئیں۔ صاحب خانہ نے خوشی میں کہا ’’ پلاؤ زندہ باد‘‘! انگریز نے جواب دیا ’’ نہیں اسلام زندہ باد !‘‘ علامہ اقبال نے اپنے عزیز کو دوسرا واقعہ سناتے ہوئے کہا ’’ایک غیر مسلم کسی اونچے عہدے پر فائز تھے‘ گھر میں عیش و عشرت اور آرام و آرائش کا ہر سامان موجود تھا‘ اونچی سوسائٹی میں عزت حاصل تھی۔ ایک دن یہی افسر گھر آئے تو ان کی بیوی نے کہا’’میں نے تو اسلام کا کلمہ پڑھ لیا‘ آپ بھی پڑھ لیجیے اور اپنے اللہ سے ہی بندگی کا عہد کیجیے‘‘۔ افسر دیر تک بیوی کا منہ تکتے رہے پھر بولے آخر کیوں؟ اس انقلاب کی وجہ کیا ہے؟ بیوی نے کہا ’’ہمیں دنیا کی ہر نعمت حاصل ہے‘ زیور کی کمی ہے نہ زرق برق لباس کی پھر جن لوگوں سے ہمارا رابطہ ہے‘

وہ بھی خوش حال اور دولت مند ہیں‘ میں جس تقریب میں بھی گئی بے فکری کے قہقہے سنے‘ زرق برق لباس دیکھے‘ سونے کے زیور دیکھے‘ عیش کے نغمے سنے لیکن یہ عجیب و غریب بات ہے کہ پھٹے کپڑوں اور ٹوٹی چپلوں میں آنے والی غریب دھوبن کی زندگی میں جو اطمینان سکون اور خوشی میں نے دیکھی‘ وہ مجھے کہیں دیکھنے کو نہیں ملی۔ میں اس سے پریشان حالی کی بات کرتی ہوں اور وہ نہایت اطمینان کے ساتھ مسکرا کر جواب دیتی ہے’’ اللہ مالک ہے ‘اس کا بڑا شکر ہے‘ وہ بڑا مہربان ہے‘ اس کے شکر کا حق ادا نہیں ہوتا‘ بی بی کوئی فکر کی بات نہیں‘ سب کا اللہ مالک ہے۔‘‘اور میں سوچنے لگتی ہوں کہ جو خوشی اور اطمینان اس غریب اور خستہ حال دھوبن کو حاصل ہے‘ دنیا کی ہر چیز ہوتے ہوئے بھی مجھے وہ حاصل نہیں۔

ضرور یہ اس کے دین کی برکت ہے اور اس کا دین واقعی اللہ کا سچا دین ہے۔۔۔اسی لیے میں نے اپنے اللہ کا کلمہ پڑھا اور اس پر ایمان لائی۔آپ بھی اپنے اللہ کا کلمہ پڑھیں اور اس پر ایمان لائیں۔‘‘  ہندوستان کے مایہ ناز محدث حضرت مولانا انور شاہ کاشمیری کے ایک لائق شاگرد مولانا علی احمد بھی حدیث پر گہری نظر رکھتے تھے‘ آپ نہایت ہی معمولی اور کمزور جثے کے مالک تھے۔ چھوٹا سا قد ‘سیاہی مائل رنگ‘ معمولی ناک نقشہ ‘کمزور و ناتواں‘ بظاہر ان کی شخصیت میں کوئی کشش نہ تھی۔ایک دن دوران درس بڑے تاثر کے ساتھ مزے لے لے کر اپنا ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔

مولانا نے بیان فرمایا:’’ میں اعظم گڑھ میں مقیم تھا‘ عصر کی نماز پابندی سے شہر کی جامع مسجد میں پڑھتا تھا۔ نماز پڑھ کر جب مسجد سے نکلتا تو مسجد کی سیڑھیوں پر ایک نوجوان کھڑا ملتا‘ میں بے اختیار چند لمحے رک کر اسے رشک سے دیکھتا رہتا۔ نوجوان واقعی قدرت کا عجیب و غریب شاہ کار تھا ‘ بلند و بالا قد‘ متناسب اعضا‘ سرخ و سفید کھِلتا ہوا رنگ‘ دلکش ناک نقشہ‘ بہترین صحت۔ ’’میں اسے دیکھتا تو اپنا وجود نہایت حقیر معلوم ہوتا۔ احساسِ کمتری میں مبتلا‘ افسردہ اور مضمحل بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کی راہ لیتا۔ راستے میں عجیب عجیب باتیں سوچتا۔ مجھے ایسا لگتا جیسے میرا دل حقیر اور اور معمولی جثے پر اللہ سے شکایت کر رہا ہو۔ میں کوشش کرکے خیالات جھٹک دیتا مگر اگلے روز یہ احساسات پھر کچھ اور زیادہ قوت کے ساتھ تازہ ہوجاتے۔

یہ سلسلہ ایک عرصے تک چلتا رہا۔ میں مسجد سے باہر آتا۔ نوجوان کھڑا ملتا اور میں اشتیاق سے اس پر نظریں جما دیتا۔ نوجوان کی شخصیت بڑی ہی دلآویز تھی مگر اس نے کبھی مجھے نظر بھر کر نہ دیکھا‘ نہ میری طرف متوجہ ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی خاص فکر میں ہے۔ کبھی وہ فضا میں تاکتا جیسے اسے گہرے غم نے گھیر رکھا ہو‘ کبھی کسی سمت ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہتا۔ ایسا محسوس ہوتا کہ وہ آنے جانے والوں سے بالکل ہی بے نیاز اپنی فکر میں مگن ہے۔ کافی دن بعد ایک روز میں حسبِ معمول مسجد سے باہر آرہا تھا کہ یکایک وہ میری طرف لپکا۔ میں ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا۔ میرے دل کی دھڑکن کسی قدر تیز ہوگئی۔

جب وہ میرے قریب آیا تو مجھے اپنا بھدا اور کمزور وجود کچھ اور زیادہ حقیر معلوم ہونے لگا۔ نوجوان نے کسی تمہید کے بغیر بڑی عاجزی اور لجاجت سے کہا’’ مولانا صاحب ! آپ کی بڑی مہربانی ہوگی‘ مجھے کوئی دعا بتائیے یا کوئی تعویذ دے دیجیے۔ شاید اللہ مجھ پر کرم فرمائے۔‘‘ میں حیرت سے اس کے یہ خلافِ توقع جملے سنتا رہا۔ پھر میرے دماغ نے نہایت چابک دستی سے یہ فیصلہ کیا کہ نوجوان ضرور دل کے ہاتھوں مجبور ہے۔ مجھے دلچسپی ہوئی۔ میں نے اس کے حسین چہرے کی طرف سر اٹھاتے ہوئے پوچھا’’بھائی آپ کس کام کے لیے دعا اور تعویذ مانگ رہے ہیں ؟ ‘‘ ’’مولانا صاحب! میرے جسم کے ایک ایک جوڑ میں درد ہے‘

نہ بیٹھ سکتا ہوں نہ کوئی کام کر سکتا ہوں۔۔۔ برسوں سے علاج کروارہا ہوں‘ سیکڑوں ڈاکٹروں اور حکیموں کو دکھا چکا مگرکوئی افاقہ نہیں۔۔۔روز بروز حالت خراب ہوتی جارہی ہے۔ گھر میں طبیعت گھبراتی ہے تو یہاں آکر کھڑا ہوجاتا ہوں۔ مولانا صاحب کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں۔ زندگی سے بیزار ہوں‘ مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا۔ میری زندگی میں کوئی سْکھ نہیں۔‘‘ نوجوان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو چھلک پڑے‘ آواز بھرا گئی اور کچھ دیر کے لیے وہ خاموش ہوگیا۔ میں حیران و ششدر یہ سب سن رہا تھا۔ کچھ دیرتو میں بت بنا خاموش کھڑا رہا اور پھر اسے کوئی جواب دیے بغیر اس طرح وہاں سے بھاگا جیسے میں نے کوئی بڑا جرم کیا ہو‘ میں نہایت تیز تیز قدموں سے چل رہا تھا۔ بے اختیار میری زبان پر شکر کے کلمات جاری تھے‘ آج مجھے اپنا مختصر سا وجود بڑا قیمتی محسوس ہورہا تھا۔ میری آنکھیں کھل گئی تھیں اور آج اللہ کے شکر میں وہ لذت تھی جو اس سے پہلے مجھے کبھی میسر نہیں آئی۔‘‘



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…