اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) آئی ایس آئی کے میجر (ر) عامر نے بھارت اور اسرائیل کی سازش کو کس طرح بے نقاب کیا، اس بارے میں انہوں نے کہا کہ اس وقت میں آئی ایس آئی اسلام آباد میں سٹیشن چیف تھا۔ اس وقت اسرائیل نے پاک فضائیہ کے ایک بھگوڑے پائلٹ کو پاکستان کے راز نکلوانے کے لیے استعمال کیا۔ جب میجر (ر) عامر کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے اس کی نگرانی شروع کر دی اور اس سے ملاقات میں اپنے آپ کو ایک پختون قوم پرست ظاہر کیا، ان دنوں ناراض پختونوں کی ایک تحریک بھی چل رہی تھی
اسی وجہ سے میجر (ر) عامر نے اسے اپنا نام سعید خان بتایا۔ اسرائیلی ایجنسی نے پاک فضائیہ کے اس افسرکو برطانیہ کے ایک ڈانسنگ کلب سے اٹھایا اور اسے تل ابیب لے گئے، جہاں اس کی برین واشنگ کی گئی اور اسے پاکستان میں پاکستان مخالف کارروائیوں کے لیے لانچ کیا گیا۔ میجر (ر) محمد عامر نے یہ سارا واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ان دنوں وہ ایک کتاب پڑھ رہے تھے جو موسادکے ایک سابق چیف نے لکھی تھی اس کتاب میں ذکر آیا کہ چاڈ میں جب ہم نے آپریشن کیا تو چونکہ وہاں ہمارا سفارتخانہ نہیں تھا تو ہم نے ارجنٹائن کے سفارتخانے کواستعمال کیا۔ میجر (ر) عامر نے کہاکہ یہ بات پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ ان کا تو پاکستان میں بھی کوئی سفارتخانہ نہیں ہے کہیں وہ یہاں پر توکوئی ایسا ہی کام نہیں کر رہے، میں نے جب ارجنٹائن کے سفارتخانے سے جو اسلام آباد میں تھا معلوم کیا تو وہاں دو ڈپلومیٹ تھے ایک سفیر تھا اور دوسرا فرسٹ سیکرٹری تھا۔ فرسٹ سیکرٹری کا نام لوسٹن تھا، میں نے اس پر نظر رکھنا شروع کر دی، ایک دن لوسٹن اڈیالہ جیل گیا وہاں سے میں نے معلومات کیں تو پتا چلا کہ وہ یہاں پر ایک ائیرفورس کے پائلٹ سے ملا تھا جس کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ لوسٹن یہودی تھا اور امریکی سفارتخانے میں بطور دفاعی اتاشی بھی کام کرتا تھا، اس طرح ایک کڑی مجھے مل گئی جب پائلٹ رہا ہوکرجیل سے باہر آیا
تومیں نے اس کے پیچھے ایک آدمی کولگا دیا جس نے اسے میرے بارے میں بتایاکہ یہ ایک پختون ہے، فوج سے ناراض ہے۔ میجر (ر) عامر نے کہا کہ میں نے دوسال اس کے ساتھ کام کیا اور وطن عزیزکے خلاف اسرائیل اور بھارت کا پلان بے نقاب کر دیا۔ دوسری طرف سابق آئی ایس آئی افسر اور دفاعی تجزیہ کار میجر (ر) محمد عامر نے جیو نیوز کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ سینئر صحافی سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کہ سول ملٹری تناؤ کسی کی بالادستی کا نہیں، دائمی بدگمانی کا معاملہ ہے،
اس بدگمانی کا حل سول ملٹری قیادت کا اپنی ذات سے بالاتر ہو کر مل بیٹھنا ہے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مخلص آدمی ہیں،انشاء اللہ وہ پاکستان اور افغانستان کو امن دے جائیں گے،نواز شریف اس وقت تکلیف،پریشانی میں ہیں ان کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا، ٹرمپ کے پالیسی بیان کے بعد پاکستان تنہائی سے نکل آیا اور پہلی بار دو سپرپاورز ہمارے ساتھ کھڑی ہوگئی ہیں، پاک افغان میڈیا مسائل کے حل کیلئے مثبت کردار ادا کرسکتا ہے، دونوں ملکوں کا میڈیا
اور عوام مل کر اپنی حکومتوں پر تعلقات بہتر کرنے کیلئے دباؤ ڈالیں، افغا نو ں کا المیہ ہے کہ پاکستان میں ان کا وکیل پاکستان کا بدخواہ ہے، امریکا، پرویز مشرف، بش اور اوباما نے پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کیا،ہم نے امریکا کا ساتھ دیا جواب میں اس نے افغانستان میں انڈیا کو بٹھادیا۔ حربیار مری اور براہمداغ بگٹی کے ٹریننگ کیمپس کھلوائے اور بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک شروع کردی،ذوالفقار علی بھٹو کو مارنا پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے، پاکستان میں اسلامی سیاست نہیں، سیاسی ا سلام کا کھیل چلا ہے،
افغان جنگ ہماری سا لمیت اور افغانوں کی آزادی کی جنگ تھی،افغان جہاد کے دوران آئی ایس آئی نے کسی پاکستانی کو تربیت دے کر نہیں بھیجا، جہاد ختم ہونے کے بعد پاکستان نے افغانستان میں بے شمار فاش غلطیاں کیں، اللہ گواہ ہے مجھے آج بھی نہیں پتا کہ آئی جے آئی کیسے بنی تھی، سول بالادستی نہیں تھی تو جنرل گل حسن اور جہانگیر کرامت وغیرہ کو کس نے گھر بھیجا تھا۔سینئر صحافی سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے میجر (ر) محمد عامر نے کہا کہ لبرل اور غیر لبرل کی تقسیم غیرمناسب ہے،
میں لبرلز کو کافر نہیں سمجھتا ہوں، زمانہ طالب علمی میں میرا تعلق بائیں بازو سے تھا اور میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھا، مذہب کے نام پر ووٹ اور نوٹ لینے کا مخالف ہوں، جنرل ضیاء الحق کی شخصیت کے دو رخ تھے، ایک جنرل ضیاء الحق فوج کا سربراہ تھا جوپاکستان کیلئے فوجی اقدامات کررہا تھا، ایک ضیاء الحق حکمران تھا جس نے صحافیوں کو کوڑے مارے، مذہب کو استعمال کیا، اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے عالمی مدبر کو پھانسی دی، میں ضیاء الحق کی مارشل لاء اور حکمرانی کی ٹیم کا حصہ نہیں تھا،
میں جنرل ضیاء الحق کو جانتا ہوں اور اس کی پالیسیوں کا دفاع کرسکتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک عالمی مدبر تھے، پلٹن کے میدان میں ہاری ہوئی جنگ بھٹو نے شملہ میں خالی ہاتھ جیت لی تھی، پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے ہی ایٹمی قوت بنا ہے،ذوالفقار علی بھٹو کو مارنا پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے، پاکستان میں اسلامی سیاست نہیں،سیاسی ا سلام کا کھیل چلا ہے، امریکیوں کے ساتھ دونوں دفعہ اشتراک فوجی آمروں ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے کیے۔میجر (ر) محمد عامر کا کہنا تھا
کہ افغان عوام کبھی پاکستان کے خلاف نہیں رہے ہیں، افغان جنگ ہماری سا لمیت اور افغانوں کی آزادی کی جنگ تھی، روس کو افغانستان پر قبضے کے بعد دریائے سندھ تک آنا تھا، ضیاء الحق افغانستان کے ساتھ مخلص تھا، جہاد ختم ہونے اور ضیاء الحق کے مارے جانے کے بعد فساد شروع ہوا، پاکستان نے اس کے بعد افغانستان میں بے شمار فاش غلطیاں کی ہیں،افغانستان کی جماعتوں نے پاکستان میں کسی سے مدد لی تو الگ بات ہے، افغان جہاد کے دوران آئی ایس آئی نے کسی پاکستانی کو تربیت دے کر نہیں بھیجا،
جہاد ختم ہونے کے بعد ہم نے پاکستانی بھیجنے شروع کردیئے اور وہاں اپنے من پسند لوگ پال لیے۔میجر (ر) محمد عامر نے کہا کہ ضیاء دور میں سی آئی اے کو افغان کمانڈروں سے ملنے کی اجازت نہیں تھی،تمام کنٹرول ہمارے پاس تھا، سی آئی اے کا پیسہ ہم لے کر آگے تقسیم کرتے تھے، ضیاء الحق کے بعد سی آئی اے یہاں پوری طرح دخیل ہوگئی، ہم نے گلبدین حکمت یار، احمد شاہ مسعود، پیر گیلانی اور صبغت اللہ مجددی وغیرہ کے ساتھ زیادتی کی، جنرل اسد درانی نے گلبدین حکمت یار کو کالر سے پکڑا،
حکمتیار نے کہا پاک فوج کی وردی پہنی ہے اس کو دعا دو۔محمد عامر کا کہنا تھا کہ امریکا، پرویز مشرف، بش اور اوباما نے پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کیا، مشرف دور میں امریکا سے تعاون ہم نے شروع نہیں کیا وہاں سے فون آگیا تھا، جنرل پرویز مشرف نے مدیروں سے کہا تھا کہ امریکا کشمیر پر ہماری مدد کرے گا، انڈیا کو افغانستان سے دور رکھے گا اور کوئی امریکی فوجی افغانستان نہیں آئے گا، چند دنوں بعد ہی امریکی فوجی پسنی میں اترے اور وہاں سے قندھار چلے گئے،
ہم نے امریکا کو ہوائی اڈے دیئے، چھ سو آدمی حوالے کیے، حامد کرزئی کو لانچ کیا اور اسلحہ کے ساتھ ان کی مکمل مدد کی۔میجر (ر) محمد عامر کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکا کا ساتھ دیا جواب میں اس نے افغانستان میں انڈیا کو بٹھادیا،حربیار مری اور براہمداغ بگٹی کے ٹریننگ کیمپس کھلوائے اور بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک شروع کردی، اسامہ نے 1998ء میں رحیم اللہ یوسفزئی کو انٹرویو میں امریکا کیخلاف جہاد کا اعلان کیا تو اگلے ہی دن ملاعمر نے اسامہ بن لادن کو قندھار بلالیا
اور بیان جاری کیا کہ اسامہ افغان سرزمین کسی کیخلاف استعمال نہیں کرے گا۔محمد عامر نے کہا کہ سول بالادستی نہیں تھی تو جنرل گل حسن اورجہانگیرکرامت وغیرہ کو کس نے گھر بھیجا تھا، آرمی چیف جنرل گل حسن اورایئرچیف مارشل رحیم کو سویلین بالادستی نے اغوا اور گرفتار کیا تھا، نیوی چیف ایڈمرل منصورالحق کو بھی سویلین بالادستی نے ہی جیل میں ڈالا تھا،سویلین زیردست نہیں،سب بالادست ہیں جس کا بس چلتا ہے اس کی بالادستی ہوتی ہے، اللہ گواہ ہے مجھے آج بھی نہیں پتا کہ آئی جے آئی کیسے بنی تھی،
سویلین بالادستی کی ایک بڑی مثال میں ہوں، سویلین نے آرمی چیف کو مجبور کر کے مجھے گھر بھیجا،ملک کیلئے میری بے تحاشا خدمات ہیں، میری آخری سالانہ رپورٹ میں مجھے قومی ہیرو قرار دیا گیا لیکن ریٹائرمنٹ خط میں میرا سروس ریکارڈ خراب قراردیدیا گیا،جنرل اسلم بیگ نے مجھ سے زیادتی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں ایسا نہ کرتا تو سول ملٹری تعلقات خراب ہوجاتے،مجھے افسوس ہے کہ میری قربانی کے باوجود سول ملٹری تعلقات ٹھیک نہیں ہوئے۔
میجر (ر) محمد عامر نے کہا کہ ادارہ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ادارے افراد اور قیادت کا نام ہے،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مخلص آدمی ہیں انشاء اللہ وہ پاکستان اور افغانستان کو امن دے جائیں گے،افغان میڈیا کے لوگوں نے آرمی چیف سے ملاقات کے بعد مجھ سے کہا کہ جنرل باجوہ پاکستان کے سب سے بہترین سفارتکار ہیں، نواز شریف اس وقت تکلیف، پریشانی میں ہیں ان کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا،ہرآرمی کمان اور سویلین لیڈر کے درمیان کچھ نہ کچھ مسئلہ رہا ہے،سول ملٹری تناو?
کسی کی بالادستی کا نہیں دائمی بدگمانی کا معاملہ ہے، یہ بدگمانی بھی زیادہ تر معاملات کے بارے میں ہے، اس دائمی بدگمانی کا واحد حل سول ملٹری قیادت کا اپنی ذات سے بالاتر ہو کر کھلے دل کے ساتھ مل کر بیٹھنا ہے، رضا ربانی کی تجویز کے بعد اب سب کو مل بیٹھ جانا چاہئے۔سابق آئی ایس آئی افسر کا کہنا تھا کہ ہمیں ٹرمپ کو جواب دینے کے بجائے دنیا کے سامنے اپنا کیس پیش کرنا چاہئے،ٹرمپ کے بیان کے بعد پاکستان میں یکجہتی پیدا ہوگئی ہے،امریکی میڈیا ٹرمپ کی پالیسی کی مذمت کررہا ہے،
ماضی میں ہم پر دہشتگردوں کی مدد کا الزام لگتا تو ہم وضاحتیں دیتے رہ جاتے تھے، پہلی دفعہ دو سپرپاورز روس اور چین نے ہمارا دفاع کیا ہے،آرمی چیف نے ٹرمپ کے بیان پر بہت مدبرانہ ردعمل دیا،اسی طرح پہلی دفعہ حکومت نے وضاحت نہیں کی بلکہ جواب دیا ہے،ٹرمپ کا مشکور ہوں میرے بس میں ہوتا تو اسے نشان پاکستان دیتا، پاکستان پر دہشتگردوں کی مدد کے الزام کی ساکھ اب ختم ہوگئی ہے،ٹرمپ کے پالیسی بیان کے بعد پاکستان تنہائی سے نکل آیا اور پہلی بار دو سپرپاورز ہمارے ساتھ کھڑی ہوگئی ہیں۔
میجر (ر) محمد عامر نے کہا کہ پاکستان میں بیس لاکھ افغان بیٹھے ہیں، ان میں کون کیا ہے کس کو پتا ہے، بھارتی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دودل سات سال لاہور میں ملنگ بن کر بیٹھا رہا،اس کو کس نے بٹھایا تھا،سانحہ آرمی پبلک اسکول کا ماسٹر مائنڈ عمر نرے افغانستان میں مارا گیا،ا مریکا نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا،ہم نے تو پورا پاکستان ان کی جھولی میں ڈالا ہوا تھا،افغانستان پر افغانوں کا نہیں امریکیوں کا کنٹرول ہے۔محمد عامر نے کہا کہ پاک افغان میڈیا مسائل کے حل کیلئے مثبت کردار ادا کرسکتا ہے،
پاکستانی اور افغان عوام ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتے ہیں، دونوں ملکوں کا میڈیا اور عوام مل کر اپنی حکومتوں پر تعلقات بہتر کرنے کیلئے دباو? ڈالیں، پاکستان ملٹری اکیڈمیز میں افغانوں سے محبت سکھائی جاتی ہے،ہمارے تو میزائلوں کے نام افغانوں کے نام پر ہیں،پاکستان اور افغانستان دونوں عالمی سازشوں میں پھنسے ہوئے ہیں،میڈیا نفرت پھیلانے والے دفاعی تجزیہ کاروں کو بلانا بند کردے۔میجر (ر) محمد عامر کا کہنا تھا کہ افغانوں کا المیہ ہے کہ پاکستان میں ان کا وکیل پاکستان کا بدخواہ ہے،
افغانوں کو پاکستان میں پاکستانی پختونوں کی ضرورت ہے، افغانستان پاکستان میں اپنی فرنچائز سلیم صافی اور آفتاب شیرپاؤ کو دیدے،محمود اچکزئی افغانستان میں پاکستان اور پاکستان میں افغانستان کو بیچتے ہیں،محمود اچکزئی کو پاکستان دشمن نہیں کہتا لیکن انہوں نے پاکستان کے مفادات کا کیا خیال رکھا ہے۔میجر (ر) محمد عامر نے کہا کہ چوہدری نثار نے کبھی افغانستان کے بارے میں بات نہیں کی،حکیم اللہ محسود مذاکرات پر تیار ہوگیا تھا مگر اسے امریکیوں نے ڈرون میں مار دیا،
چوہدری نثار بہادر شخص ہے اس نے اس پر امریکیوں کو لتاڑا، میڈیا پر لوگوں نے کہا حکیم اللہ محسود کی موت پر چوہدری نثار رویا تھا، چوہدری نثار نے شربت گلہ کو رہا کروا کر عدالت میں جاکر اس کی مدد کی۔محمد عامر نے کہا کہ پاکستان غیرریاستی عنصر اجمل قصاب کی وجہ سے کٹہرے میں کھڑا ہے، کلبھوشن یادو انڈین ریاست کا بھیجا ہوا دہشتگرد تھا جسے انڈیا عالمی فورمز پر دفاع کررہا ہے،افغانستان کے مسئلے کو ریجنل ایشو بنادیا جائے، افغان طالبان کو سیاسی عمل کا حصہ بننے پرآمادہ کیا جائے۔