پاکستان کے 10 سال سےزائدعرصہ تک پاکستان کے صدررہنے والے جنرل ضیا الحق کے والدجالندھرمیں امام مسجدتھے ، 1947ءمیں ضیاءالحق اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان آگئے ، جس کے بعد حکومت پاکستان نے ان کے خاندان کو پشاور میں ایک گھر الاٹ کیا ، خاطر خواہ
آمدن نہ ہونے کی وجہ سے ضیاءکے والد نے گھر کا ایک حصہ کرائے پر دے دیا، مگرکرائے دار نے 1950میں اس گھر پر قبضہ جمالیااور کرایہ وغیرہ دینے سے مکر گیا، ضیاءالحق کے والد علاقہ معززین کے پاس گئے اور ثالثی کاوشوں کے ذریعے مکان کا قبضہ چھڑانے کی کوشش بھی کی لیکن کوئی کاوش کامیاب نہ ہوسکی ، بالآخر جنرل ضیاءالحق کے والد نے انصاف کیلئے اپنے کرایہ دار کیخلاف عدالت سے رجوع کرلیا، عدالت میں مقدمہ چلنا شروع ہوا ، سالوں کے سال بیتتے چلے گئے اوراسی دوران ضیاءالحق آرمی میں بھرتی ہوگئے ، بریگیڈیئرسے میجر جنرل ، لیفٹینٹ جنرل اور آرمی چیف جنرل ضیاءالحق ہوگئے لیکن ان کے مکان کے مقدمے کا فیصلہ نہ ہوسکا،جب وہ صدر بنے تو ایک دن وہی شخص جس نے قبضہ کررکھا تھا، جنرل ضیاءالحق کے پاس ان کے دفتر آیا اور چابی حوالے کرتے ہوئے معافی مانگ کر التجا کی کہ مقدمہ واپس لیا جائے اور عدالت میں جا کر ضیاءکے حق میں بیان دیدیا، یوں یہ مقدمہ اپنے انجام کو پہنچا“۔