مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے‘ کمپنی کا ہیڈ کوارٹر نیو جرسی میں ”ماؤنٹ اولیو“ میں واقع ہے‘ ملازمین کی تعداد 16 ہزار ہے اور سالانہ آمدنی 33 ارب ڈالر ہے‘ یہ کمپنی 29 قسم کے چاکلیٹ بناتی ہے‘ یہ مصنوعات دنیا کے 55 ممالک میں فروخت ہوتی ہیں‘ یورپ مارس کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے‘ اس کی وجہ اس کا یورپی ذائقہ ہے‘ یہ کمپنی 1932ء میں برطانیہ میں بنی تھی‘ اس نے یورپی ذائقے کو ذہن
میں رکھ کر چاکلیٹ بنانا شروع کئے تھے‘یہ کمپنی بعد ازاں امریکا شفٹ ہو گئی لیکنذائقے کی روایت اسی طرح جاری رہی‘ کمپنی نے دنیا کے مختلف ممالک میں فیکٹریاں لگا رکھی ہیں‘ مارس کی ایک فیکٹری ہالینڈ میں بھی ہے‘ یہ فیکٹری یورپ کو چاکلیٹ سپلائی کرتی ہے‘ مارس کا بزنس پوری رفتار سے چل رہا تھا‘ مالکان اور کارکن دونوں مطمئن تھے‘ منافع مل رہا تھا‘ ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ بھی ہو رہا تھا اور کمپنی حکومت کو بروقت اور پورا ٹیکس بھی دے رہی تھی چنانچہ ہر طرف ”ستے خیراں“ تھیں لیکن پھر ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا اور 84 سال پرانی کمپنی کی بنیادیں ہل گئیں۔یہ واقعہ جرمنی میں پیش آیا‘ جرمنی مارس کی مصنوعات کی بڑی مارکیٹ ہے‘ جرمنی کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کچھ اور کھائیں یا نہ کھائیں لیکن یہ مارس کے چاکلیٹ ضرور کھاتے ہیں‘ یہ 8 جنوری 2016 ء کی بات ہے‘ ایک جرمن خاتون نے مارکیٹ سے چاکلیٹ خریدی‘ ریپر کھولا اور بار کو ”چک“ مارا‘ خاتون کو اس میں کوئی غیر معمولی چیز محسوس ہوئی‘ اس نے فوراً لقمہ ہتھیلی پر الٹ دیا‘ چاکلیٹ کے لقمے میں پلاسٹک کا چھوٹا سا ٹکڑا تھا‘ خاتون نے سمجھا یہ چاکلیٹ کے ریپر کا ٹکڑا ہے لیکن جب اس نے پلاسٹک کے ٹکڑے کو غور سے دیکھا تو پتہ چلا اس کی ہیئت اور رنگ ریپر سے مختلف ہے اور یہ چاکلیٹ میں مکس تھا‘ وہ خاتون واپس سٹور پر گئی‘
چاکلیٹ کاؤنٹر پر رکھا‘ پلاسٹک کا ٹکڑا دکھایا اور تحریری شکایت کا مطالبہ کر دیا‘سٹور کی انتظامیہ نے چاکلیٹ اور پلاسٹک کا ٹکڑا قبضے میں لے لیا‘ خاتون سے تحریری شکایت لکھوائی اور سارا مٹیریل کمپنی کو بھجوا دیا‘ چند سطروں کی اس شکایت اور پلاسٹک کے اس چھوٹے سے ٹکڑے نے پوری کمپنی کو ہلا کر رکھ دیا‘ یہ نمونہ امریکا تک گیا‘ تحقیقات ہوئیں‘ پتہ چلا پلاسٹک کا یہ ٹکڑا نیدر لینڈ کی فیکٹری سے چاکلیٹ میں
مکس ہوا تھا‘ یہ پیکنگ کا ٹکڑا تھا‘ یہ اڑ کر چاکلیٹ کے ڈرم میں گرا‘ بارز بننے کے عمل کے دوران چاکلیٹ میں مکس ہوااور یہ مختلف گوداموں‘ سٹوروں اور دکانوں سے ہوتا ہوا اس خاتون کے دانتوں تک پہنچ گیا‘ خاتون کی شکایت درست نکلی‘ کمپنی کے پاس اب دو آپشن تھے‘ یہ خاتون سے معذرت کرتی‘ اسے دس بیس ہزار یوروز دیتی‘ زندگی بھر فری چاکلیٹ کی پیش کش کرتی اور معاملہ ختم ہو جاتا یا پھر یہ دنیا بھر میں
پھیلے کروڑوں صارفین سے معذرت کرتی‘ مارکیٹ میں موجود اپنی تمام چاکلیٹس واپس منگواتی اور اپنا پورا سسٹم ٹھیک کر لیتی‘ کمپنی کو پہلا آپشن سوٹ کرتا تھا‘ کیوں؟کیونکہ کمپنی نے صرف ایک غریب خاتون پر چند ہزار یوروز خرچ کرنے تھے اور بات ختم ہو جاتی جبکہ دوسرے آپشن میں جگ ہنسائی بھی تھی اور اربوں ڈالر کا نقصان بھی اور مصنوعات کی ساکھ بھی داؤ پر لگ جاتی لہٰذا پہلا آپشن عقل مندی تھی لیکن آپ کو یہ
جان کر حیرت ہو گی‘ کمپنی نے دوسرا آپشن پسند کیا‘ مارس نے دو دن قبل دنیا کے 55 ممالک سے اپنے چاکلیٹ واپس منگوانے‘ انہیں تلف کرنے اور ان کی جگہ تازہ سپلائی بھجوانے کا اعلان کر دیا‘کمپنی نے آج اپنے تمام ڈیلرز کو ہدایات جاری کر دی ہیں ”آپ وہ تمام ڈبے واپس بھجوا دیں جن پر 19 جون 2016ء سے 8 جنوری 2017ء تک کی ایکسپائری ڈیٹس لکھی ہیں“۔مارس کے اندازے کے مطابق دنیا کے 55 ممالک سے
ایک ارب سے زائد ڈبے واپس آئیں گے اور کمپنی کو پاکستانی روپوں میں 300 سے 500 ارب روپے نقصان ہو گا‘ ان چاکلیٹس کی واپسی اور تلفی کا کام بھی مشکل اور مہنگا ثابت ہو گا‘ کمپنی کو دنیا میں کوئی ایسی جگہ تلاش کرنی پڑے گیجہاں چاکلیٹس کو ضائع کرتے وقت ماحولیاتی آلودگی نہ پھیلے‘ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں امریکا‘ یورپ اور جاپان سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملک مارس کو اپنی حدود میں اس ماحولیاتی دہشت
گردی کی اجازت نہیں دیں گے چنانچہ کمپنی کو افریقہ یا ایشیا کا کوئی ایسا ملک تلاش کرنا ہو گا جس کی حکومت چند لاکھ ڈالر لے کر اپنے ملک کو گندہ کرنے کی اجازت دے دے‘ کمپنی کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے‘ یہ واقعہ مدت تک صارفین کے ذہن میں رہے گا‘یہ جب بھی مارس چاکلیٹ کو چک ماریں گے‘ انہیں اپنے منہ میں پلاسٹک کا دھاگہ محسوس ہو گا‘ صارفین کی اس فیلنگ کا تاوان بھی کمپنی کو ادا کرنا پڑے گا‘ کمپنی کی
سیل بھی متاثر ہو گی لیکن کمپنی نے اس کے باوجود مالیاتی اور ساکھ کا نقصان برداشت کرنے کا فیصلہ کیا‘ کیوں؟ یہ کیوں دراصل وہ فرق ہے جو مغرب کو مغرب اور مشرق کو مشرق بناتا ہے‘ جو ہم مسلمان معاشرے اور کافر معاشرے کے درمیان دیوار بنتا ہے‘ یہ دیوار‘ یہ فرق کیا ہے اور ہم آج تک اس فرق کو کیوں نہیں سمجھ سکے‘ہمیں اس طرف آنے سے پہلے ایک اور بات سمجھنی ہو گی۔مارس کمپنی کا کاروبار 55 ملکوں
تک پھیلا ہے‘ ان 55 ملکوں میں ان کے روزانہ 21 کروڑ چاکلیٹ کھائے جاتے ہیں‘ کمپنی کو ان 21 کروڑ چاکلیٹوں اور ان 55 ملکوں سے صرف ایک شکایت موصول ہوئی‘ دنیا کے کسی دوسرے ملک اور کسی دوسرے صارف کی چاکلیٹ سے پلاسٹک نہیں نکلا‘ اس کا مطلب ہے‘پلاسٹک کا وہ ٹکڑا صرف ایک چاکلیٹ میں تھا‘ کمپنی کی باقی چاکلیٹس صاف تھیں‘دوسرا یہ پلاسٹک صحت کیلئے خطرناک نہیں تھا‘ یہ جسم میں
جانے کے بعد قدرتی عمل کے ذریعے خارج ہو جاتا لیکن کمپنی نے ان دونوں حقائق کے باوجود مالیاتی اور ساکھ کا نقصان برداشت کیا‘ کیوں؟ ہم اب اس کیوں کا فیصلہ کریں گے کیونکہ ہم اس کیوں کو مغرب اور مشرق کے درمیان دیوار بھی سمجھتے ہیں اور فرق بھی! یہ دیوار‘ یہ فرق اخلاقیات اور قانون ہے‘ یہ کمپنیاں صاف ستھری اور معیاری مصنوعات کو اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتی ہیں‘ یہ لوگ سمجھتے ہیں‘ہم مصنوعات بیچ
کر منافع تو کما لیں گے‘ ہم پیسے بھی جمع کر لیں گے لیکن ہم معاشرے میں نفسیاتی‘ جسمانی اور ماحولیاتی خرابیوں کا باعث بنیں گے‘ یہ خرابیاں ہماری اپنی نسلوں کو خراب کریں گی‘ یہ جلد یا بدیر ہمارے اپنے بچوں کو متاثر کریں گی چنانچہ ہماری منافع خوری کا عذاب ہماری اولاد کو بھی بھگتنا پڑے گا اور یہ گھاٹے کا سودا ہے‘ دوسرا یہ لوگ جانتے ہیں‘ دنیا کے کسی کونے سے اگر دوسری یا تیسری شکایت آ گئی‘ اگر کوئی اور
صارف ہماری چاکلیٹ کھا کر بیمار ہو گیا یا دنیا سے گزر گیاتو پھر ہمیں اور ہماری کمپنی کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکے گی‘ امریکا سے لے کر جاپان تک‘ چین سے لے کر مراکش تک اور ترکی سے لے کر سپین تک ساری ترقی یافتہ دنیا ہم پر پابندی لگا دے گی‘ ہمارے مالکان‘ ہمارے سی ای او اور ہمارے منیجرز باقی زندگی جیلوں میں گزاریں گے‘ ان کے گھر تک بک جائیں گے‘ یہ قانون کا وہ خوف ہے جس کے ہاتھوں
جبور ہو کر جنرل موٹرز نے 2014ء میں دنیا بھر سے 48 لاکھ گاڑیاں واپس منگوا لی تھیں‘ان گاڑیوں میں معمولی سا نقص تھا اور اس نقص کی وجہ سے یورپ نے جنرل موٹرز کی گاڑیاں کلیئر کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ کمپنی کو گاڑیاں منگوانے‘ نقص ٹھیک کرنے اور گاڑیاں واپس بھجوانے پر 5 بلین ڈالر خرچ کرنا پڑے‘ 10 بلین ڈالر کا ہرجانہ اس کے علاوہ تھا‘یورپ اور امریکا میں ایسی معمولی غلطیوں پر اداروں کا بند ہونا
معمولی بات ہے‘ ایک چھوٹی سی غلطی ہوتی ہے اور چند منٹوں میں ارب پتی فٹ پاتھ پر آ جاتے ہیںجبکہ اس کے مقابلے میں آپ اپنے لوگوں کو دیکھئے‘ آپ کو خوراک اور ادویات کی زیادہ تر کمپنیوں کے مالک الحاج ملیں گے‘ حاجی صاحب اپنا زیادہ تر وقت مکہ مدینہ میں گزاریں گے‘ ماتھے اور ایڑھیوں پر عبادت اور تقویٰ کے نشان بھی ہوں گے‘ لباس اور اطوار بھی خالص مذہبی ہوں گے اور آپ انہیں صدقات اور زکوٰۃ میں بھی
پورا مومن پائیں گے لیکن آپ جب ان کی فیکٹریوں‘ ان کی لیبارٹریوں اور ان کے کچن میں جھانکیں گےتو آپ کو وہاں گندگی‘ بیماری اور موت کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا‘ پاکستان دنیا کی مہلک ترین بیماریوں کا گڑھ ہے‘ ہم ہیپاٹائٹس سی میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں‘ پہلا نمبر برادر اسلامی ملک مصر کے پاس ہے‘ یہ بھی ہماری طرح الحاج کے نرغے میں ہے‘ ہم شوگر میں چوتھے نمبر پر ہیں‘ ملک میں ہارٹ اٹیک‘ کینسر‘ ٹی بی
اور گردے اور جگر کے امراض بھی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں‘ ہم نے کبھی ان کی وجوہات تلاش کیں؟ جی ہاں! ان کی وجہ غیر معیاری خوراک ہے‘ہم لوگ روز صبح‘ دوپہر اور شام زہر کھاتے ہیں‘ آپ کبھی گھی ملوں میں جھانک کر دیکھیں‘ دودھ‘ دہی اور چینی بنانے والوں کا جائزہ لیں اور کبھی فائیو سٹار ریستورانوں میں جا کر دیکھیں‘ آپ اس کے بعد کھانا نہیں کھا سکیں گے لیکن پورے ملک کو زہر کھلانے کے
بعد بھی حاجی صاحب‘ حاجی صاحب ہیں اور ان کے ایمان پر شکن تک نہیں آتی‘ یہ خود کو قانون‘ معاشرے اور مذہب کے سامنے بھی جوابدہ نہیں سمجھتے‘ ایک طرف وہ لوگ ہیںجو چاکلیٹ میں پلاسٹک کا معمولی ٹکڑا نکلنے اور گیئر باکس سے آواز آنے پر کھربوں روپے کا نقصان برداشت کرتے ہیں اور دوسری طرف ہم ہیں جن کے کھانوں سے چھپکلیاں نکل آئیں یا دودھ سے ڈٹرجنٹ پاؤڈر کوئی دکان تک بند نہیں ہوتی۔کاش کوئی اس
ملک کے حاجیوں کو بھی بتا دے‘ جناب اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ ماتھے کے محرابوں سے نہیں نکلتا‘ انسانیت سے جنم لیتا ہے اور کافر انسانیت میں اہل ایمان سے بہت آگے ہیں‘ ہماری سوچ سے بھی آگے۔