صبح سویرے کچھ لوگ بیٹھے ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے، ان باتوں میں ایک بات یہ تھی کہ وہ حضرت عمر ؓ کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ پر فوقیت اور فضیلت دے رہے تھے، یہ بات اڑتی ہوئی امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب ؓ تک پہنچ گئی۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ دوڑے ہوئے آئے اور لوگوں کے ایک بھرے مجمع میں کھڑے ہو کر فرمایا: خدا گواہ ہے کہ ابوبکر ؓ کی ایک رات، عمر کے سارے خاندان سے بہتر ہے، اور ابوبکر ؓ
کا ایک دن، عمر کے خاندان سے بہتر ہے، پھر آپ ؓ نے لوگوں کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق ؓ جیسے عظیم انسان کا ایک واقعہ بیان کیا تاکہ ان کو حضرت ابوبکر ؓ کا مقام و مرتبہ معلوم ہو۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ایک رات رسول کریمﷺ غار کی طرف جانے کے لیے نکلے، آپﷺ کے ہمراہ ابوبکر صدیق ؓ بھی تھے، ابوبکر ؓ راستہ میں چلتے وقت کبھی آنحضورﷺ کے پیچھے پیچھے چلتے اور کبھی حضور ﷺ کے آگے آگے چلتے، یہاں تک رسول اللہﷺ کو جب اس کا علم ہوا تو آپﷺ نے پوچھا: ابوبکر ؓ! کیا وجہ ہے کہ تم کبھی میرے پیچھے چلتے ہو اور کبھی میرے آگے چلتے ہو؟ حضرت ابوبکر ؓ نے بڑے غمزدہ لہجہ میں عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں کبھی آپﷺ کے پیچھے چلتا ہوں تاکہ دیکھوں کہ کہیں کوئی آپﷺ کو تلاش تو نہیں کر رہا ہے! اور کبھی آپﷺ کے آگے آگے چلتا ہوں تاکہ دیکھوں کہ کہیں کوئی گھات لگا کر آپﷺ کا انتظار تو نہیں کر رہا ہے، اس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا: اے ابوبکر ؓ! اگر کوئی چیز ہوتی، خطرہ درپیش ہوتا تو میں پسند کرتا کہ تم ہی میرے آگے ہوئے۔ ابوبکر ؓ نے شوق سے عرض کیا: جی ہاں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ جب دونوں غارِ ثور میں پہنچ گئے تو حضرت ابوبکر ؓ نے حضورِ اکرمﷺ کو یہ عرض کرتے ہوئے ٹھہرایا کہ یا رسول اللہﷺ! آپﷺ ٹھہریئے!
مجھے پہلے اس غار میں جانے دیں، اگر کوئی سانپ یا مضر جانور ہو تو وہ مجھے نقصان پہنچائے، آپﷺ کو نہ پہنچائے۔ ابوبکرؓغارکےاندرگئے اور اپنے ہاتھ سے سوراخوں کو ٹٹولنے لگے اور ہر سوراخ کو کپڑے سے بند کیا، جب سارا کپڑا اس میں لگ گیا تو دیکھا کہ ایک سوراخ باقی رہ گیا ہے اس میں اپنا پائوں رکھ دیا، پھر نبی اکرمﷺ اس غار میں داخل ہوئے، جب صبح ہوئی اور ہر طرف روشنی پھیل گئی تو آنحضرتﷺ
کی صدیق اکبر ؓ پر نظر پڑی تو دیکھا کہ ان کے بدن پر کپڑا نہیں ہے، آپﷺ نے متعجب ہوکرپوچھا: اے ابوبکر ؓ! تمہارا کپڑا کہاں ہے؟حضرت ابوبکر ؓ نے سارا واقعہ بتایا تو نبی کریمﷺ نے اپنے دستِ مبارک اٹھائے اور یہ دعا فرمائی: اے اللہ! قیامت کے دن ابوبکرؓ کو میرے ساتھ میرے درجہ میں کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اللہ جل جلالہٗ نے آپ کی دعا قبول فرما لی ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے
فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے، ابوبکر ؓ کی وہ رات، عمر کے خاندان سے زیادہ بہتر ہے۔حضور اقدسﷺ اور آپﷺ کے رفیق حضرت ابوبکر ؓ، غار کے اندر روپوش ہو گئے، تاریک رات ہے،اندھیراچھارہاہے،آنحضرتﷺ کو نیند آرہی ہے، چنانچہ آنحضورﷺ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، حضرت صدیق اکبر ؓ کی گود میں اپنا سر مبارک رکھا اور سو گئے، اسی دوران حضرت ابوبکر ؓ کے اس پائوں
کو زہریلے سانپ نے ڈس لیا جس پائوں کے ساتھ انہوں نے سانپ کے بل کو بند کیا ہوا تھا، لیکن آپ ؓ نے اس ڈر سے کہ کہیں رسول اللہﷺ بیدار نہ ہو جائیں، ذرا بھی حرکت نہیں کی۔ مگر کچھ ہی دیر کے بعد درد کی شدت سے ابوبکر صدیق ؓ، کے آنسوئوں کا ایک قطرہ رسول اللہﷺ کے چہرے مبارک پرگراجس سے آنحضرت ﷺ کی آنکھ کھل گئی، آپﷺ نے پوچھا: اے ابوبکر ؓ! کیا بات ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا: اس وقت آپ ؓ کو تکلیف ہو رہی تھی، میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان! سانپ نے ڈس لیاہے، حضور نبی کریمﷺ
نے اپنا مبارک لعاب دہن اس پر لگایا تو جو دردان کو محسوس ہو رہا تھا وہ ایسا ختم ہوا کہ گویاجیسےسانپ نے ڈسا ہی نہ ہو اور جس وقت آنحضرتﷺ کی وفات قریب ہوئی تو اس زہر کا اثر عود کر آیا تھا۔اُدھر شرک کے زہریلے و خطرناک سانپ اور کفر کے سردار شیاطین، حضورِ اقدسﷺ اور آپﷺ کے یارِ غار کی تلاش میں تیزی سے نکلے، ہر مقام پر ہر جگہ پر گئے یہاں تک کہ جبل ثور پر آپہنچے اور اس غار کے دروازہ کے
پاس آکرکھڑےہو گئے جس غار میں آنحضرتﷺ اور آپﷺ کے صاحب چھپے ہوئے تھے۔ ابوبکر صدیق ؓ کی ان پرنظر پڑی تو گھبرا گئے اور پریشان ہوئے کہ کہیں یہ لوگ حضورﷺ کو دیکھ نہ لیں، رسول اللہﷺ نے ان کی طرف دیکھا تو ان کاغم ختم کرنے کے لیے آہستہ آواز میں فرمایا: ’’ غم نہیں کرو! بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ابوبکر صدیق ؓ نے سہمی ہوئی آواز میں کہا: اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدموں کی
طرف دیکھا تو ہمیں ضرور دیکھ لے گا، آنحضورﷺ نے جواب میں فرمایا: اے ابوبکر ؓ! تمہارا ان دو کے متعلق کیا گمان ہے جن کا تیسرا خود اللہ ہو؟حضور نبی کریمﷺ نماز پڑھنے لگے اور دعا کرنے لگے:فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَ کَلِمَۃَ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo (التوبۃ: 40)حضرت ابوبکر صدیق ؓ، پھٹے پرانے اور بوسیدہ عباء پہنے رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے تھے، اس عباء(چوغہ)کےکنارےکھجورکی شاخوں اور نباتات کی لکڑیوں سے جوڑے گئے تھے۔ حضرت جبریل علیہ
السلام نازل ہوئے اور دریافت کیا:اےمحمدﷺ!کیاوجہ ہے کہ میں ابوبکر ؓ کے جسم پر ایسی بوسیدہ قسم کی عباء دیکھتا ہوں جس کو اس طرح سےجوڑاگیاہے؟حضورﷺ نے فرمایا: ’’اے جبریل علیہ السلام! ابوبکر ؓ نے فتح سے پہلے اپنا مال مجھ پر خرچ کر دیا تھا۔ جبریل علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آپﷺ کو سلام کہہ رہے ہیں اور آپﷺ سے فرما رہے ہیں کہ آپ ﷺ ان سےپوچھیےکہ کیا وہ اس حالت فقر پر اللہ سے خوش ہے یا نا خوش؟ حضور اکرم ﷺ نے پوچھا: اے ابوبکر ؓ! اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہہ رہے ہیں اور آپ ؓ سے
پوچھ رہے ہیں، کہ کیا آپ ؓ اس حالتِ فقیرانہ پر اللہ سے خوش ہیں یا نا خوش؟ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: کیا میں اپنے رب سے ناخوش ہو سکتا ہوں؟ پھر از راہِ شوق فرمانے لگے: میں اپنے رب سے راضی ہوں،میں اپنے رب سے راضی ہوں۔ میں اپنے رب سے راضی ہوں۔رات چھانے کو تھی،صحابہ ؓ حضورﷺ کے ارد گرد یوں منتشر بیٹھے تھے جیسے ستارے چودھویں کےچاندکےاردگردہوں،اورآنحضرتﷺ اپنی شیریں گفتگو جاری رکھے ہوئے تھے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت میں ایک ایسا آدمی داخل ہو گا کہ جنت میں ہر گھر
والا اور بالاخانے والا اس کو خوش آمدید، خوش آمدید کہے گا اور کہےگا کہ ہمارے ہاں آئو، ہمارے ہاں آئو۔ حضرت ابوبکر ؓ نے شوق سے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! آج کل اس آدمی کاثواب(نیکی)کیاہے؟ حضور اقدسﷺ نے صدیق اکبر ؓ کی طرف انبساط سے دیکھا اور ان کو یہ خوشخبری سنائی کہ اےابوبکر ؓ! وہ آدمی تم ہی ہو۔ جب نبی اکرمﷺ کو آسمانی معراج ہوئی اور آپﷺ جنت عدن میں داخل ہوئے تو وہاں آپﷺ نے چودھویں کے چاند کی مانند بے مثال حور دیکھی جس کی پلکیں، گدھ کے اگلے پروں کی طرح تھیں۔
حضورﷺ نے اس سے پوچھا: تو کس کے لیے ہے؟ اس حور نے کہا: میں آپﷺ کے بعد آنے والے خلیفہ کےلیےہوں۔آنحضرتﷺ اپنے رفقاء کے درمیان پر وقار اور باعظمت طریقہ سے تشریف فرما تھے کہ آپﷺ نےفرمایا:اللہ تعالیٰ، ابوبکر ؓ پر رحم فرمائے، انہوں نے اپنی بیٹی سے میری شادی کی، دارِ ہجرت میرے ہمراہ گئےاوربلالؓکوغلامی سے آزادی دلائی، اور اللہ تعالیٰ عمر ؓ پر رحم فرمائے، وہ حق بات کہتا ہے، خواہ تلخ ہی کیوں نہ ہو اوران کاکوئی دوست نہیں۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے، جن سے فرشتے حیا کرتے
ہیں اور اللہ تعالیٰ علی ؓ پر رحم فرمائے،اےاللہ! جہاں یہ جائیں، حق کو ان کے ساتھ ہی پھیر دے۔ایک آدمی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس بیٹھا تھا، اس نے پوچھا: کیا آپ ؓ نے زمانۂ جاہلیت میں بھی کبھی شراب نوشی کی ہے؟ ابوبکر صدیق ؓ نے اعوذ باللہ پڑھی۔اس نے پوچھا: کیوں؟ ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ میں اپنی عزت کو بچاتا تھا اور اپنی اخلاقی قدروں کا تحفظ کرتا تھا۔ کیونکہ جو شخص شراب پیتا اس کی عزت و آبرو خاک میں مل جاتی تھی۔ یہ بات رسول اللہﷺ کو پہنچی تو آپﷺ نے فرمایا کہ ابوبکر ؓ نے دوبار تصدیق کی ہے۔حضرت
ابوبکر صدیق ؓ اپنے ساتھ تین مہمانوں کو لے کر گھر پہنچے، پھر مہمانوں کو اپنے بیٹے کے پاس چھوڑا، اور خود رسالت مآبﷺ کے ساتھ رات کا کھانا تناول فرمانے کے لیے تشریف لے گئے، کا شانۂ اقدسﷺ پر رات کا ایک حصہ گزارنےکے بعد گھر واپس آئے تو اپنی بیوی سے پوچھا: مہمانوں کو کھانا کیوں نہیں دیا؟ تمہیں کھانا کھلانے میں کیا چیز مانع ہوئی؟ بیوی نے کہا: مہمانوں نے آپ کے بغیر کھانا کھانے سے انکار کر دیا، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! میں بھی یہ کھانا بالکل نہیں کھائوں گا۔ پھر جب انہوں نے کھانا
مہمانوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ کھائو! تو وہ کھانے لگے۔ ان میں سے ایک آدمی نے کہا: خدا کی قسم! ہم جو لقمہ بھی اٹھاتے اس کے نیچے سے اور زیادہ نکل آتا تھا یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے۔ اور باقی بچا ہوا کھانا اس کھانے سے زیادہ ہے جو پیش کیا گیا تھا، حضرت ابوبکر ؓ نے جو دیکھا تو واقعی کھاناویساہی تھا یا اس سے بھی زیادہ تھا، اپنی بیوی سے فرمانے لگے: اے بنی فراس کی بہن! یہ کیا ہوا؟ وہ خوشی سے کہنے لگیں: واقعی یہ تو پہلے سے تین گنا زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ وہ کھانا رسول
اللہﷺ کی خدمت میں لےگئے۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس کچھ مال آیا تو آپ ؓ نے لوگوں میں وہ مال برابر طریقہ سے تقسیم کر دیا، حضرت عمر ؓ نے کہا کہ اے خلیفۂ رسولﷺ! آپ ؓ، اہل بدر اور دوسرے لوگوں کے درمیان برابر کا برتائو کرتے ہیں؟حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ دنیا تو مقصد تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے اور اس میں زیادہ وسعت زیادہ بہتر ہے۔ پھر ایک دن حضرت ابوبکر ؓ مختلف وفود روانہ فرما رہے تھے اور مختلف مہمات میں امراء کو مقرر کر رہے تھے کہ ایک آدمی یہ دیکھ کرآپ ؓ نے کسی بدری صحابی ؓ
کو نہیں بھیجا، آپ ؓ سے کہنے لگا کہ اے خلیفۂ رسول اللہﷺ! آپ ؓ اہل بدر کو عامل کیوں نہیں مقرر کرتے؟ آپ ؓ نے فرمایا کہ مجھے ان کے مقام کا علم ہے، لیکن میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ ان کو دنیا میں آلودہ کروں۔حضورِ اقدسﷺ نے حضرت صدیق اکبر ؓ کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے ابوبکر ؓ کے سوا ہر ایک کابدلہ چکا دیا ہے، کیونکہ ان کے ہم پر ایسے احسانات ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے روز ان کا
بدلہ ان کو دیں گےاورجس قدر ابوبکر ؓ کے مال نے مجھے نفع پہنچایا اتنا نفع مجھے اور کسی کے مال نے نہیں پہنچایا۔مسجد کے صحن میں حضرت سعید بن المسیب ؓ بیٹھے تھے اور آپ ؓ کے اردگرد لوگ بھی جمع تھے، لوگوں نے صدیق اکبرؓکےمتعلق کچھ معلوم کرنا چاہا تو آپ ؓ نے فرمایا کہ ابوبکر صدیق ؓ کا حضورﷺ کی نظر میں ایک وزیر کا مقام تھا،آنحضورﷺ تمام اہم امور میں ان سے مشاورت فرماتے تھے، ابوبکر صدیق ؓ
ثانی الاسلام تھے، نیز غار میں بھی ثانی اثنین (دو میں سے دوسرے) تھے، غزوئہ بدر کے موقع پر بھی قریش میں ثانی یہی تھے اور قبر مبارک میں بھی یہی ثانی ہیں، اور حضور اکرمﷺ کسی کو ان پر مقدم نہیں رکھتے تھے۔ایک آدمی حضرت علی بن الحسین ؓ کے پاس آیا اور اس نے سوال کیا کہ حضورﷺ کی نظر میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کا کیا مقام تھا؟ آپ ؓ نے فرمایا کہ آنحضورﷺ کی نظر میں ان کا مقام وہی تھا جو
اس وقت ان کا مقام ہے۔ (یعنی جیسے ان کی قبریں، حضورﷺ کی قبر مبارک کے ساتھ ہیں۔)فکر و غم کی کیفیت میں صدیق اکبر ؓ منبر پر جلوہ افروز ہوئے، حمد و ثناء کے بعد فرمایا: لوگو! تم یہ آیت مبارکہ پڑھتے ہو:یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْo (المائدۃ: 5:1)لیکن اس کے معنی کوخلافِ محل مقام پر محمول کرتے ہو، حالانکہ میں نے سرکارِ دو عالمﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ جب
کوئی کام خلافِ شرع ہوتے دیکھیں اور اس کام کو نہ روکیں تو عنقریب اللہ سب کو عذاب میں گرفتار کریں گے، پھر اس عذاب کو ان سے دور نہیں کریں گے۔حضورِ اکرمﷺ نے حضرت اغرّ ؓ کے لیے کھجوروں کی ایک تھیلی دینے کا حکم دیا، آپﷺ نے فرمایا کہ فلاں انصاری آدمی سے جا کر لے لو، حضرت اغرّ مزنی ؓ اس انصاری آدمی کے پاس گئے اور ان سے کھجوروں کی تھیلی مانگی تو اس نے ٹال مٹول کی اور دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت اغرّ، حضورِ اقدسﷺ کی خدمت میں واپس آئے اور سارا قصہ سنایا، آنحضورﷺ نے
حضرت ابوبکر ؓ کے ذمہ یہ کام لگایا کہ وہ ان کے ساتھ اس انصاری آدمی کے پاس جائیں اور اس سے کھجوروں کی تھیلی وصول کریں۔ حضرت اغرّ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ نے مجھ سے مسجد میں ملنے کا وعدہ کیا، جب ہم صبح کی نماز پڑھ چکےتومیں نے حضرت ابوبکر ؓ کو حسب وعدہ اپنی جگہ پایا، چنانچہ ہم (اس انصاری آدمی کے پاس) چلے، جب بھی صدیق اکبر ؓ کسی آدمی کو دور سے دیکھتے اسے سلام کہتے، پھر مجھ سے فرمایاکہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہیں عظیم مرتبہ حاصل ہو توسلام کرنے میں کوئی شخص تم پر
سبقت نہ لے جائے۔ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ایک آدمی پر اتنا سخت غصہ آیا کہ اس سے قبل آپ ؓ کو اس قدر شدید غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا گیا، (یہ حالت دیکھ کر) ابوہریرہ ؓ نے عرض کیا: اے خلیفۂ رسولﷺ! آپ ؓ مجھے فرمائیے، میں اس کی گردن اڑاتا ہوں، (یہ بات سنتے ہی) حضرت ابوبکر ؓ کا غصہ فرو ہوا، آتش غضب میں کمی آئی تو ابوہریرہ ؓ سے فرمایا: تیری ماں تجھ پر روئے، تو نے یہ کیوں کہا؟ ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ خدا کی قسم! اگر آپ ؓ مجھے قتل کرنے کا حکم دیتے تو میں اس کوضرور قتل کر دیتا۔
حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ ؓ! تیری ماں تجھ پر روئے، یہ حق تو رسول اللہﷺ کے بعد کسی کو حاصل نہیں ہے۔ایک آدمی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آیا، آپ ؓ ان دنوں خلیفۃ المسلمین تھے۔ اس آدمی نے اظہارِ افسوس کرتےہوئے یہ شکوہ کیا کہ میرا باپ میرا سارا مال اپنے قبضہ میں کر کے اس کا صفایا ہی کرنا چاہتا ہے۔ ابوبکر صدیق ؓ نے اس آدمی کے باپ کو بلایا اور اس سے فرمایا کہ تمہیں اس کا صرف اتنا مال لینے کا حق ہے جو تیرے لیے کافی ہو۔ اس کےباپ نے کہا: اے خلیفۂ رسول (ﷺ)! کیا رسول کریم ﷺ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہانت و مالک لأبیکo
’’یعنی تم بھی اور تمہارا مال بھی تمہارے باپ کی ملک ہے۔‘‘ابوبکر ؓ نے فرمایا: ہاں، بالکل فرمایا ہے، مگر
اس سے آنحضورﷺ کی مراد نفقہ ہے۔ایک دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ، لوگوں کے پاس تشریف فرما تھے اور ان سے خیر و فضل کی باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ان کے سامنے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا ذکر ہوا تو فرمانے لگے کہ ہاں، وہ سبقت لے جانے والے تھے ان کاذکرخیرہونا چاہیے، پھر فرمایا کہ اس ذات کی قسم، جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جب بھی کسی نیک کام میں ہمارامسابقہ ہوا تو وہ ہم پر سبقت لے گئے۔نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ ؓ کو کتاب اللہ کی تعلیم کی نصیحت و ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: قرآن چار آدمیوں
سےسیکھو:ابن امّ عبد، معاذ، اُبی اور سالم مولی ابی حذیفہ ؓ سے۔ میں نے ارادہ کیا کہ ان حضرات کو لوگوں کی طرف بھیجوں جیسے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا۔ ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ! ابوبکراورعمرؓ کا آپﷺ کی نظر میں کیا مقام ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں ان دونوں سے مستغنی نہیں ہوں، دین میں ان دونوں کی مثال تو آنکھ اور کان جیسی ہے۔ایک دفعہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ، رسول اللہﷺ کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ
ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗo وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃِ شَرًا یَّرَہٗo’’پس جو شخص ذرہ برابر نیکی کرےگاوہ اس کو (وہاں) دیکھ لے گا اور جو شخص ذرہ برابر بدی کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا۔‘‘(الزلزال: 7،8)۳ابوبکر صدیق ؓ نے فوراً کھانا چھوڑ دیا اور گھبراتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا ہم اپنی تمام برائیوں کو اگلے جہاں میں دیکھیں گے؟ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ جو تم ناگوار حالات دیکھتے ہو یہ وہی ہے جس کا تمہیں بدلہ
دیاجاتاہےاورنیکی،نیکو کار کو آخرت میں ملے گی۔ایک مرتبہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر w تشریف لائے تو سرورِ دو عالمﷺ نے فرمایا: یہ دو شخص تمام اول و آخر اہل جنت کے بوڑھوں کے سردار ہیں۔ مگر انبیاء اور مرسلین اس سے مستثنیٰ ہیں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: اے علی ؓ! ان کو نہ بتانا۔ایک دن حضرت ابوبکر ؓ، نبی اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں بیٹھے تھے کہ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابوبکر ؓ! تم حوضِ کوثر پر میرے رفیق ہو اور غار میں میرے صاحب ہو۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا عوالیِ مدینہ میں مشہور گھر تھا جس
کا کوئی چوکیدار نہیں تھا۔ کسی نے آپ ؓ سے عرض کیا:اےخلیفۂ رسولﷺ! آپ ؓ بیت المال کے لیے کوئی پہرے دار مقرر کیوں نہیں کرتے؟ آپ ؓ نے فرمایا: وہاں کوئی خطرہ نہیں۔ پوچھا گیا کہ وہ کیوں؟ فرمایاکہ اس پر قفل (تالا) لگا ہوا ہے۔ درحقیقت حضرت ابوبکر صدیق ؓ بیت المال کا سارا مال (ضرورت مندوں میں) تقسیم کر دیا کرتے تھے یہاں تک کہ اس میں کچھ باقی نہ رہا تھا، جب ابوبکر صدیق ؓ مدینہ منتقل ہو گئے توبیت المال کو بھی اپنےرہائشی گھر میں منتقل کر لیا، جب کوئی مال آتا ابوبکر ؓ اس کو بیت المال میں رکھ دیتے، پھر لوگوں
میں تقسیم کردیتےحتیٰ کہ کچھ بھی باقی نہ رہتا۔ حضرت صدیق اکبر ؓ کی جب وفات ہو گئی اور آپ ؓ کی تدفین بھی عمل میں آگئی توحضرت عمر ؓ نے خزانچیوں کو طلب کیا اور ان کے ہمراہ ابوبکر ؓ کے بیت المال میں تشریف لے گئے، آپ ؓ کے ساتھ عبدالرحمن بن عوف ؓ اور عثمان بن عفان ؓ بھی تھے،بیت المال کھولا تو اس میں نہ دینار ملا اور نہ درہم۔ ایک بوری ملی، اس کو جھٹکا تو اس سے ایک درہم نکلا، (یہ حالت دیکھ کر) ان کو ابوبکر ؓ پر رحم آگیا۔موسم خوشگوار تھا حضرت ابوبکر صدیق ؓ آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے کہ آپ ؓ کی نظر
ایک پرندہ پر پڑی جو ایک درخت پر بیٹھا میٹھی میٹھی آواز میں چہچہا رہا تھا۔ (یہ منظر دیکھ کر) آپ ؓ کہنے لگے، اے پرندہ! تو اچھا ہے، خدا کی قسم! کاش! میں تیری طرح (کا ایک پرندہ) ہوتا، درختوں پر بیٹھتا، پھل کھاتا اور اڑتا پھرتا، نہ کسی حساب کا ڈر ہوتا اور نہ عذاب کا۔خداکی قسم! کا! میں سر راہِ ایک درخت ہوتا۔ اونٹ میرے پاس سے گزرتے اور مجھے اپنے منہ کا نوالہ بناتے،مجھےچباتے،کھاتےاور نگل جاتے، پھر مجھے مینگنیوں کی صورت میں نکالتے، میں کوئی بشر نہ ہوتا۔حضرت عمر ؓ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آئے
اور صدیق اکبر ؓ کو یوں مخاطب کیا:یا خیر الناس بعد رسول اللّٰہ ﷺo۔۔’’یعنی رسول اللہﷺ کے بعد تمام لوگوں میں بہترین انسان!‘‘حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے (اس اندازِ تخاطب پر)حیاوشرم اور عاجزی و انکساری سے سر جھکا لیا، پھر فرمایا کہ تم مجھے یہ کہہ رہے ہو حالانکہ میں نے رسولِ کریمﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمر ؓ سے بہتر آدمی پر سورج طلوع نہیں ہوا۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ جب مکہ میں تھے توقبول اسلام کی شرط پر غلاموں کو آزاد کرایا کرتے تھے، آپ ؓ کمزور عاجز اور بوڑھی عورتوں کو بھی اسلام قبول
کرنے کی شرط پر غلامی سے آزادی دلاتے تھے، (ایک دن) آپ ؓ کے والد ابو قحافہ آئے اور کہنے لگے کہ بیٹے! تم کمزور لوگوں کو آزادی دلاتے ہو، اگر طاقتور اور جری قسم کے مردوں کو آزادی دلائو تو زیادہ بہتر ہو گا، وہ تمہارے کام بھی آئیں گے،دشمن سے تمہارا دفاع بھی کریں گے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کہا، ابا جان! میں تو اللہ تعالیٰ سے ہی اس کا صلہ اورانعام لیناچاہتاہوں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:فَاَمَّا مَنْ
اَعْطیٰ و اتَّقٰیo (اللیل: 5)دن مسلسل گزر رہے تھے اور ابوبکر صدیق ؓ، صاحب فراش ہیں، بدن مبارک خدا کے خوف سے لرزاں و ترساں ہے، آپ ؓ کی صاحبزادی ام المؤمنین حضرت عائشہ r غم کے مارے ان کے سرہانے بیٹھی آنسو بہا رہی ہیں، دریں اثنا ابوبکرصدیقؓفرماتےہیں:بیٹی! میں مال و تجارت کے اعتبار سے قریش میں سب سے زیادہ مال دار تھا لیکن جب مجھ پر امارت کا بار پڑا تو میں نے سوچا کہ بس بقدر کفایت مال لے لوں۔ بیٹی!
اب اس مال میں سے صرف یہ عبائ، دودھ کا پیالہ اور یہ غلام بچا ہے جب میری وفات ہو جائے تو یہ چیزیں عمر بن خطاب ؓ کے پاس بھیج دینا۔ جب آپ ؓ کی وفات ہو گئی، روح مبارک جسم سے نکل کر اعلیٰ علیین میں پہنچ گئی اورآپؓحضورﷺکے پہلو میں مدفون ہو گئے تو ام المؤمنین حضرت عائشہ r نے وہ عبائ، دودھ کا برتن اور غلام، حضرت عمرؓکے پاس بھیج دیے۔ یہ چیزیں دیکھ کر حضرت عمر ؓ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ ابوبکر ؓ پر رحم کرے! انہوں نے اپنے بعد آنے والوں کو مشکل میں ڈال دیا، کسی کو کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا۔ (یعنی اپنی زندگی اتنی صاف شفاف گزاری) خدا کی قسم! اگر ابوبکر کے ایمان کا روئے
زمین کے تمام لوگوں کے ایمان کے ساتھ وزن کیا جائے تو ابوبکر ؓ کے ایمان کا پلہ بھاری ہوگا۔ خدا کی قسم! میری یہ تمنا ہے کہ کاش کہیں ابوبکر ؓ کے سینہ کا ایک بال ہوتا۔ حضرت عائشہ r فرماتی ہیں کہ ابوبکر صدیق ؓ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ کوئی دینار یا درہم نہیں چھوڑا، وہ تو اپنا مال بھی بیت المال میں ڈال دیتے تھے۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ بستر مرگ پر لیٹے تھے بدن پر لرزہ طاری تھا، اعضائ، خوف و گھبراہٹ سے کانپ رہے تھے اور لوگ کثرت سے عیادت کرنے آرہے تھے، لوگوں نے پوچھا: اے ابوبکر ؓ! اے خلیفۂ
رسولﷺ! کسی طبیب کو بلا لائیں! آپ ؓ نے ہلکی سی مسکراہٹ میں فرمایا کہ طبیب تو آگیا ہے۔ لوگوں نے افسردہ ہو کر پوچھا: پھر اس نے کیا کہا ہے؟ فرمایا کہ وہ کہتا ہے کہ اِنِّیْ فَعَّالٌ لِمَا اُرِیْد یعنی میں جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں۔ لوگوں نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے اپنے سروں کو ہلایا اور پھر خاموش ہو گئے۔ حضرت عائشہ r اپنے باپ کی عیادت کے لیے آئیں، دیکھا کہ آپ ؓ جان کنی کے عالم میں ہیں، حضرت عائشہ r کے رخساروں
پر آنسو رواں تھے اس شدتِ کرب کے عالم میں حضرت عائشہ r کی زبان پر بے ساختہ یہ شعر جاری ہو گئے:لعمرک ما یغنی الثراء عن الفتی۔۔’’تیری عمر کی قسم! جان کنی کے وقت اور سینہ تنگ ہو جانے کے عالم میں کسی انسان کو اس کی مال داری کام نہیں آتی۔‘‘صدیق اکبر ؓ نے نظر التفات فرمائی اور فرمایا: اے بیٹی! ایسا نہ کہو، بلکہ تم یہ کہو:وَ جَآئَتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّo’’اور سکراتِ موت کا وقت حق کے ساتھ آگیا۔‘‘ (سورۃ
ق: 19)اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنی بیٹی کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: میرے ان دو کپڑوں کو دیکھو، انہیں دھو کر مجھےانہی میں کفن دے دینا، کیونکہ زندہ آدمی کو نئے کپڑوں کی مردے کی بہ نسبت زیادہ ضرورت ہوتی ہے حضرت سلمان ؓ بھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی عیادت کے لیے آئے، آپ ؓ موت کی کشمکش میں تھے، حضرت سلمان ؓ نے گھبراتے ہوئے عرض کیا:اےابوبکرؓ! اے خلیفۂ رسولﷺ! مجھے وصیت کیجئے؟ ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تم پردنیا(کےدروازے)کھولےگا لیکن تم اس میں سے بقدرِ
ضرورت ہی لینا، اور یہ کہ جو شخص صبح کی نماز پڑھ لیتا ہے وہ اللہ کی پناہ و امان میں آجاتا ہے، لہٰذا تم اس کی پناہ کو نہ توڑنا ورنہ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیے جائو گے۔