شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ایک شیربڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو گیا اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا‘ بھوک سے جب برا حال ہوا تو کسی لومڑی سے مشورہ کیا‘ اس نے کہا ’’ فکر نہ کرو‘ میں اس کا بندوبست کردوں گی‘‘ یہ کہہ کر لومڑی نے پورے جنگل میں مشہور کر دیا کہ شیر بہت بیمار ہے اور بچنے کی کوئی امید نہیں ہے‘ یہ خبر سنتے ہی جنگل کے جانور اس کی عیادت کو آنے لگے‘ شیر غار میں سر جھکائے پڑا رہتا اور عیادت کے لئے آنے والے جانوروں کا شکار کر کے اپنی بھوک مٹاتا رہتاایک دن لومڑی شیر کا حال احوال پوچھنے کیلئے آئی اور غار کے دہانے پر کھڑی ہو گئی‘ اتفاقاًاس دن کوئی جانور نہ آیا تھا جس کی وجہ سے شیر بھوکا تھا‘ اس نے لومڑی سے کہا ’’باہرسے کہا ’’باہر کیوں کھڑی ہو‘ اندر آؤ اور مجھے جنگل کا حال احوال سناؤ‘‘ لومڑی خطرہ بھانپ کر بولی ’’ نہیں میں اندر نہیں آ سکتی‘ میں یہاں سے باہر آنے والے جانوروں کے پنجوں کے نشان دیکھ رہی ہوں لیکن واپسی کے نہیں‘‘۔ شیخ سعدی ؒ اس حکایت سے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ انجام پر ہمیشہ نظر رکھنے والے ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔
سوتیلا پن
“فوزیہ تم آج بھی مجھے پریشان دکھائی دے رہی ہو۔ کہو کیا بات ہے؟”میرے سر تاج میں۔۔ میں آج بھی شاید خواب ہی دیکھ رہی ہوں کہ شہر کے مشہور و معروف دولت مند وکیل نے مجھ غریب اور مجبور لڑکی کو اپنایا۔””نہیں فوزیہ۔یہ خواب نہیں حقیقت ہے تم جانتی ہو بیوی کا انتقال ہو جانے کے بعد میں نے دوبارہ شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ کیونکہ مجھےاپنے بچوں سے بے انتہا محبت ہے اور میں اپنے بچوں کو ذہنی اذیت کا شکار ہونے نہیں دینا چاہتا تھا لیکن جب والدین کی
ضد بڑھتی گئی تو مجھے مجبور ہونا پڑا اور میں نے تمہیںشریک حیات بنانے کا فیصلہ کر لیا۔تم حیران ہو کہ آخر میں نے تمہیں ہی پسند کیوں کیا ہے۔ فوزیہ وجہ یہ ہے کہ میں نے پڑوس میں رہ کر تمہیں بچپن ہی سے اپنی سوتیلی ماں کے ہاتھوں پل پل دکھ جھیلتے اور اذیتیں اٹھاتے ہوئے دیکھا ہے، تم ہمیشہ سلگتی اور بکھرتی رہی ہو۔ میں نے سوچا تم نے سوتیلے پن کا کرب سہا ہے تم اس درد کو محسوس کرتی ہو لہذا ان معصوم بچوں کو وہ دکھ کبھی نہیں دو گی جو تم نے جھیلے ہیں۔!