سائنسی ریسرچوں کے مطابق ذہین لوگ پاگل پن کا عموماً شکار بنتے رہتے ہیں۔ بلکہ جو انسان جتنا تخلیقی ذہن رکھتا ہے اتنا اس کا پاگل پن کی طرف رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ سر نیوٹن نے ٹیلی سکوپ ایجاد کیا، ریاضی کے اصول ترتیب دیے،
کشش سقل کا کانسیپٹ دیا مگر وہ بیچارہ کئی بار پاگل پن کے دوروں اور شدید ترین ڈپریشن کا شکار ہوتا رہا۔ڈارون بیچارہ اتنا سخت ڈپریشن کا مریض تھا ۔جب کوئی چھوٹی سی بات اس کو لڑ جاتی تھی تو اس کا میدہ کام کرنا چھوڑ دیتا تھا اور ڈاکٹر اس کو’ پینک ڈس آرڈر ‘کہتے تھے۔ یعنی برا انجام سوچ سوچ کر پریشان ہونے کی بیماری۔اس کی آنتوں کا نظام درہم برہم ہو جاتا تھا۔ سر ونسٹن چرچل جب خراب موڈ میں ہوتے تھےتو لوگ ان سے بھاگتے تھے اور وہ خود اپنے اداس گھنٹوں کو ’بلیک ڈاگ‘ یعنی کالا کتا بولتے تھے۔ وہ اس کالے کتے سے خود کو نہیں بچا پاتے تھے۔ ان کو بھی شدید ڈپریشن کے دورے پڑتے تھے۔ پاگل پن اور ذہانت کے درمیان موجود اس رابطے یا تعلق کو اتفاق بھی کہا جاسکتا ہے اور سچ بھی مانا جا سکتا ہے۔ مگر ریسرچ کے مطابق جو جتنا تخلیقی اور ذرخیز دماغ رکھتا ہے وہ اتنا ہی پاگل پن کا رجحان بھی رکھتا ہے۔ بلکہ ایک انگریز برٹش سٹڈی کے مطابق پاگل پن اور ذہانت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔جب ان کا دماغ روشن ہو تو دنیا کو سنوارتے ہیں اور جب پھر جائے، تو منفی پہلو قابض ہو جاتا ہے اور یہ خود کو اور اپنے ماحول کو تہس نہس کر دیتے ہیں۔