امیر معاویہؓ رات کو لیٹے اور شیطان نے کچھ اثرات پھیلا کر قلب اور دماغ میں پہنچائے تہجد کے وقت آنکھ نہ کھل سکی اور تہجد چھوٹ گئی۔حالانکہ ترک تہجد کوئی معصیت نہیں اس لیے کہ امتی کے اوپر نہ فرض ہے نہ واجب ،مگر جو اہلِ اللہ تہجد کے عادی ہوتے ہیں ان کی اگر ایک تہجد بھی قضا ہو جائے تو سمجھتے ہیں کہ ساری عمر اکارت ہوگئی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ سر پر آپڑا ۔۔
تو حضرت معاویہؓ اس تہجد کے قضا ہونے پر تمام دن روئے ۔۔استغفار کیا اور دعائیں مانگیں اور کہا کہ یہ پہلی بار قضا ہوئی ہے ۔غرض اگلے دن جب سوئے تو عین تہجد کے وقت ایک شخص نے انگو ٹھا ہلایا کہ حضرت امیر !تہجد کا وقت ہوگیا ہے اٹھئے تہجد پڑھ لیجئے ۔۔حضرت امیر معاویہؓ نے اجنبی آواز محسوس کر کے اس کا ہاتھ پکڑ لیا کہ میرے محل سرا ئے میں تو کون اجنبی ہے جو مجھے میرے زنانہ خانہ میں تہجد کے لئے اٹھا نے آیا ہے ؟اس نے کہا میں شیطان ہوں تہجد کے لئے اٹھانے آیا ہوں ۔۔فرمایا کہ کمبخت تو اور تہجد کے لئے اٹھائے اس نے کہا کہ جی ہاں!خیر خواہی کا جذبہ ابھرا اور مجھے گوارانہ ہوا کہ آپ کی تہجد قضا ہو ۔۔فرمایا کہ تو اور خیر خوا ہی کرے ۔۔۔اللہ نے فرمایا ہے ترجمہ ’’شیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے دشمن ہی سمجھو ،وہ کبھی دوست نہیں بن سکتا ‘‘اس لئے تو اور دوستی کرے ،یہ نا ممکن ہے ،سچ سچ بتا کہ تو کیوں آیا ہے ورنہ میں بھی صحابی ہوں اور اتنی قوت رکھتا ہوں تیری گردن مروڑوں گا اور اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا تب وہ اصلیت کھلی۔۔۔اس نے کہا کہ اصل قصہ یہ ہے کہ کل میں نے ہی ایسی حرکت کی تھی کہ آپ کی تہجد قضا ہوگئیمیں کچھ ایسے وساوس اور آثار دماغ اور قلب پر ڈالے کہ آپ کو گہری نیند آگئی اور وقت پر آنکھ نہ کھلی ۔
۔آپ نے سارے دن استغفار کیا اور توبہ کیا تو اتنے درجے بلند ہوئے آپ کے کہ سوبرس بھی تہجد پڑھتے تو شاید اتنے درجے بلند نہ ہوتے جتنے اس توبہ سے بلند ہوئے اسی لئے میں نے آپ کو اٹھا یا کہ اگر آج تہجد قضاہوگئی تو پھر توبہ کریں گے اور پھر درجے بلند ہوں گے تو سودرجوں کے بجائے ایک ہی درجہ بلند ہو ۔۔یہی اچھا ہے کچھ تو درجات میں کمی ہوگی ۔جب یہ اتنی بات اس نے سچ کہہ دی تب حضرت امیر معاویہؓ نے اس کو چھوڑا ۔۔۔فرمایا کہ صحیح ہے یہ خباثت تیرے دل میں چھپی ہے ۔