انتھونی برگس چالیس برس کا تھا جب اس کو کینسر تشخیص ہوا۔ اس کے دماغ میں ایک رسولی تھی اور ڈاکٹروں کے مطابق اس کے پاس صرف ایک سال باقی تھا۔ اس نے کوئی پلاننگ نہیں کی تھی۔ جس وقت اس کو یہ خبر ملی اس وقت اس کا دیوالیہ نکل چکا تھا۔ وہ ایک رائٹر تھا لیکن اس کی کوئی کتاب بیسٹ سیلر نہیں بنی تھی۔ اس کو رہ رہ کر اپنی بیوی کا خیال آتا تھا کہ میری موت کے بعد اس کا کیا بنے گا۔
ایک دن وہ بیٹھا اور اس نے ایک نشست میں ایک ایسا ناول تحریر کیا جو دنیا بھر میں مقبول ہو گیا۔ اس نے ہمت نہیں ہاری اور سوچا کی جانے سے پہلے اپنی بیوی کے لیے اتنا سامان کر کے جائے گا کہ وہ پر سکون زندگی بسر کر سکے۔اس کی نیت میں اتنا خلوص تھا کہ اس نے اس سال میں چار سے پانچ ناول تحریر کیے اور سب کے سب ایک سے بڑھ کر ایک بزنس کرتے رہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ خدا کو شاید اس کا جذبہ اتنا پسند آیا کہ وہ اس سے اگلے سال بھی چھ ماہ تک بالکل ٹھیک ٹھاک رہا۔جب تجسس نے اسے ستایا تو اس نے دوبارہ ہسپتال کا رخ کیا۔ ڈاکٹروں نے ٹیسٹ کیے تو اس کے دماغ کی رسولی ختم ہو چکی تھی اور وہ بالکل بخیریت تھا۔ اس کو معجزہ سمجھیں یا کچھ اور مگر وہ ایک بہت اچھا اور مقبول رائٹر بن گیا۔ انتھونی نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔اس نے اپنی بقیہ طویل عمر میں ستر کے قریب ناول لکھے اور اپنی بیوی کے ساتھ پرسکون اور خوشحال زندگی بسر کرتا رہا۔ اگر میں اور آپ بھی ہر دن اس طرح گزاریں کہ دوسروں کی خاطر جئیں اور ان کی فکر کریں تو شاید ہماریزندگی بھی یکدم بدل جائے گی۔ اگر ہر شخص اپنا ہر دن ایسے گزارے جیسے اس کے آخری سال کا ایک اور دن بیت گیا تو شاید ہم ہر ایک کے ساتھ خوش خلقی روا رکھیں
اور صرف اپنی یہ دنیا ہی نہیں بلکہ اپنی آخرت کا سامان کر لیں۔ جب آپ کسی شے کے پیچھے پڑ جاؤ اور دباؤ محسوس کر کے محنت کرو تو آپ اس کو پانے کو کافی حد تک یقینی بنا لیتے ہو۔ ہر دن ایسے گزاریں جیسے آپ کے آخری سال کا دن ہو۔ اس سے آپ کا کام اور آپ کے رشستے ناتے دونوں میں بہت اصلاح ہو سکتی ہے۔