انیس سو اسی اور نوے کی دہائی میں نیویارک دنیا کے بدامن ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا‘ شہر پر مافیاز کا قبضہ تھا‘ گلی گلی میں گینگ بنے تھے‘ یہ گینگ موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر شہر میں نکلتے تھے اور راستے میں ہر شخص کو لوٹ لیتے تھے‘ شہر میں اغواءبرائے تاوان‘ عصمت دری‘ عصمت فروشی اور فراڈ معمول تھا‘ نیویارک شہر سے ہر روز تیس چالیس لاشیں نکلتی تھیں اور یہ لوگ عموماً ڈکیتی کے دوران مارے جاتے تھے‘ شہر میں خوف کی یہ صورتحال تھی کہ لوگ شام چھ بجے کے بعد گھروں سے نہیں نکلتے تھے‘
پورے شہر میں جرائم پیشہ افراد کی حکومت تھی‘ نیویارک میں اس دور میں ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں لوگوں کو ایک سگریٹ اور استعمال شدہ لپ سٹک کےلئے قتل کر دیا گیا اور کوئی ان کی لاش اٹھانے کےلئے تیار نہیں تھا‘ حکومت ناکام ہو گئی‘عدلیہ بے بس ہو گئی اور پولیس نے لاچاری کا اظہار کر دیا‘ یہ صورتحال 1991ءتک جاری رہی یہاں تک کہ نیویارک میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا اور صورتحال بدل گئی۔نیویارک کا ایک عام شہری رات کی آخری میٹرو میں سوار تھا‘ اس کے ڈبے میں چند اور لوگ بھی بیٹھے تھے‘ اچانک ایک سیاہ فام نوجوان اپنی جگہ سے اٹھا‘ جیب سے ریوالور نکالا‘ ڈبے میں سوار لوگوں کی طرف لہرایا اور جیبیں خالی کرنے کا حکم دے دیا‘ لوگوں نے جیبوں سے پرس نکالے اور اس کے حوالے کر دیئے‘ وہ اس شخص کے پاس پہنچ گیا‘ وہ بھی پرس ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھا تھا‘ ڈاکو اس کے قریب آیا‘ اس سے پرس لیا‘ پرس کھولا تو اس میں صرف تیس ڈالر تھے‘ ڈاکو نے پرس اس کے منہ پر مارا اور گالیاں دینا شروع کر دیں‘وہ حالات کا مارا پریشان حال شخص تھا‘ وہ یہ گالیاں برداشت نہ کر سکا‘ وہ اپنی جگہ سے اٹھا‘ کالے کو پکڑا اور پھینٹنا شروع کر دیا‘ یہ سیاہ فام ڈاکو کےلئے حیران کن صورتحال تھی‘ نیویارکر نے سیاہ فام کی ٹھیک ٹھاک پھینٹی لگائی‘ ٹرین کا دروازہ توڑا اور ڈاکو کو نیچے پھینک دیا‘
ڈبے میں سوار لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے‘ وہ شخص ٹرین سے اترا تو اسے صحافیوں نے گھیر لیا‘ اس سے پوچھا گیا ” کیا تمہیں ڈاکو سے ڈر نہیں لگا“ اس نے انکار میں سر ہلایا اور جواب دیا ” میں ڈر ڈر کر تھک گیا ہوں‘ میں مزید کتنا خوفزدہ ہوتا“ یہ واقعہ نیویارک کی نفسیات کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا‘ لوگوں کو محسوس ہوا‘ گینگسٹر بھی عام انسان ہیں‘ ان سے لڑا بھی جا سکتا ہے اور مارا بھی ‘ لوگ اس واقعے سے نڈر ہو گئے اور یہ بے خوف ہو کر گلیوں میں پھرنے لگے‘
یہ مافیاز اور گینگسٹرز سے لڑنے اور بھڑنے بھی لگے۔یہ تبدیلی بظاہر بہت اچھی تھی‘ عوام کو بے خوف ہونا چاہیے‘ عوام جب تک اپنے حقوق کےلئے کھڑے نہیں ہوتے‘ یہ جب تک لڑتے نہیں ہیں‘ یہ اپنے حقوق حاصل نہیں کر سکتے وغیرہ وغیرہ مگر امریکی حکومت کا رد عمل بالکل مختلف ہوا‘ وہ رد عمل کیا تھا‘ ہم اس طرف آنے سے قبل امریکی معاشرے کا ایک اور پہلو بھی ڈسکس کرتے ہیں‘
دنیا میں سب سے زیادہ نفسیات دان‘ نفسیاتی تجزیہ کار اور نفسیاتی فلاسفر امریکا میں ہیں‘ حکومت اپنی زیادہ تر پالیسیاں ان کے مشورے سے بناتی ہے‘ یہ لوگ سوشل سائیکالوجسٹ‘ پولیٹیکل سائیکالوجسٹ اور ماب سائیکالوجسٹ کہلاتے ہیں‘ نیویارک کا یہ واقعہ جوں ہی سامنے آیا‘ امریکا کے اعلیٰ ترین نفسیات دانوں نے حکومت کو فوراً وارننگ دے دی‘ نفسیات دانوں کی متفقہ رائے تھی‘
یہ ایک واقعہ پورے امریکا کو تباہ کر دے گا‘ حکومت نے اگر اس واقعہ کا نوٹس نہ لیا تو یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکا دس برسوں میں پچاس ملک بن جائے گا‘ نفسیات دانوں کا کہنا تھا‘ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے‘ وہ کام جو نیویارک کا پولیس ڈیپارٹمنٹ‘ جوڈیشل سسٹم اور میٹرو پولیٹن گورنمنٹ نہیں کر سکی وہ کام ایک نہتے نیویارکر نے کر دیا‘ گویا ایک تنہا شخص پورے نظام پر بھاری ہے‘ حکومت نے اگر سنجیدگی نہ دکھائی تو یہ شخص ہیرو بن جائے گا‘
ملک میں بغاوت پھیل جائے گی اور اس بغاوت کے آخر میں امریکا ٹوٹ جائے گا‘ نفسیات دانوں کا تجزیہ تھا‘ حکومت کو فوراً نیویارک پر توجہ دینی چاہیے‘ نیویارک میں بڑے پیمانے پر جرائم کی بیخ کنی ہونی چاہیے تا کہ عوام کو یہ پیغام پہنچ سکے کہ سٹیٹ‘ سٹیٹ ہوتی ہے اور عام شخص خواہ کتنا ہی مضبوط‘ کتنا ہی بے خوف کیوں نہ ہو جائے‘ یہ سٹیٹ کا متبادل نہیں ہو سکتا‘ یہ نقطہ حکومت کی سمجھ میں آ گیا‘
واشنگٹن متحرک ہوا‘ امریکا کے ماہر ترین پولیس افسروں کو نیویارک میں تعینات کیا گیا‘و لیم بریٹن کو سٹی ٹرانزٹ پولیس کا چیف لگا دیا گیا‘ حکومت نے ادارے کو فنڈز دیئے‘ ججوں کو مزید فعال بنایاگیا‘جاسوسی کا نظام وسیع کیا گیا‘ سیٹلائٹ کی مدد لی گئی‘ اسلحہ اور ڈرگ ڈیلرز کا پیچھا کیا گیا‘ ٹرین‘ بس اورٹیکسیوں کا سسٹم بدل دیا گیا‘ ٹرینوں کے تمام ڈبوں میں سفید کپڑوں میں ملبوس لوگ بٹھائے گئے‘
”بلیک منی“ کے راستے روکے گئے اور قانون کی عملداری پر توجہ دی گئی‘ ان اقدامات کے نتیجے میں نیویارک چار سال میں ”کلین“ ہو گیا‘1994ءمیں ولیم بریٹن کو نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کا کمشنر مقرر کر دیا گیا‘ قتل و غارت گری رک گئی‘ ڈکیتیاں ختم ہو گئیں‘ عصمت دری اور لوٹ مار بھی دم توڑ گئی اور اسلحے اور ڈرگس کی تجارت بھی بند ہو گئی‘1994ءسے جرائم کی شرح میں ہر سال کمی واقع ہو رہی ہے اور 2012ءمیں یہ کم ترین سطح پر تھی‘ یہ ماڈل اس قدر کامیاب تھا کہ اگست 2011ءکو جب لندن میں فسادات پھوٹ پڑے اور پانچ دن میں سینکڑوں دکانیں ‘ گھر اور گاڑیاں جلادی گئیں تو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے نیویارک سے یہ ماڈل منگوایا‘ ولیم بریٹن کو نیویارک سے بلوا کر اپنا مشیر بنایا اور لندن میں بھی نیویارک کی طرز پر کام شروع کر دیا۔