قیصرروم نے حالات کا جائزہ لینے کیلئے اپنا ایک آدمی مدینے بھیجا‘ وہاں پہنچ کر وہ کسی سے پوچھنے لگا ’’آپ کے شہنشاہ معظم کا محل کہاں ہے‘‘۔ مدینے کے لوگ ’’شہنشاہ‘ محل اور معظم‘‘ جیسے الفاظ سے بالکل ناآشناتھے‘ آپ یہ بتائیں کہ ملنا کس سے ہے؟ کہنے لگا‘ مسلمانوں کے بادشاہ سے۔ فرمایا ‘ ہمارے ہاں بادشاہ کوئی نہیں صرف ایک خادم ہوتا ہے جو ہمارے معاملات کا انتظام کرتا ہے‘ اس کا نام عمرؓ ہے اوروہ محل میں نہیں رہتا بلکہ گارے کے ایک جھونپڑے میں رہتا ہے اور
وہ اس وقت کہیں مزدوری کر رہا ہوگا۔رومی یہ سن کر بڑا ہی حیران ہوا اور آپؓ کی تلاش میں چل پڑا‘ ذرا آگے جا کر دیکھا کہ عمرؓ سر کے نیچے درہ (بعض روایات کے مطابق اینٹ) رکھ کر مٹی پہ سوئے ہوئے ہیں‘ یہ دیکھ کر کہنے لگا ’’ کیا یہ وہ عمرؓ ہے جس کی ہیبت سے دنیا کے فرماں رواؤں کی نیند اڑ چکی ہے؟‘‘کہنے لگا ’’اے عمرؓ! آپ نے انصافکیا اور آپ کو گرم ریت پر بھی نیند آ گئی‘ ہمارے بادشاہ ظالم اور بددیانت ہیں‘ اس لئے انہیں سنگین حصاروں میں بھی نیند نہیں آتی‘‘۔