وہ سادہ سا عام معصوم بچوں کی طرح ایک ہونہار بچہ تھا اس کی عمر نو سال رہی ہوگی ایک دفعہ اپنی ماں کے ساتھ کسی گارڈن میں گھومنے گیا ہوا تھااسے اس کی ماں نے ایک شیشے کی بوتل دکھائی جس کے اندر ایک بڑا سنترہ رکھا ہوا تھا۔
ماں کے بتانے پر بچے نے تعجب و حیرت سے اپنی ماں سے پوچھا کہ یہ اتنا بڑاسنترہ اس شیشے کی بوتل میں کس طرح داخل ہوگیا اور یہ اب وہ اس بوتل سے کس طرح نکلے گا؟؟ اس کی ماں نے بچے کو گھر کے باغیچے میں لایا اور اس کے سامنے ایک خالی بوتل لائی اور اسے سنترے کے درخت کی نئی ٹہنی سے باندھ دیا جس سے نئے نئے سنترے نکل رہے تھےاور کچھ دنوں بعد اس بوتل میں ایک چھوٹا سا سنترہ داخل کرکے رکھ دیاہوا کا گزر جاری رہا اور سنترہ کی فطری نشو نما ہوتی رہی سنترہ کو اپنی ضرورت کے لئے جس کھاد و خوراک کی ضرورت تھی وہ پہنچایا جاتا رہا- دن گزرتے گئے سنترہ بڑا ہوتا گیا بڑا ہوتا گیا یہان تک کہ اس کا بوتل سے نکلنا دشوار ہوگیا۔ بچے کو راز سمجھ آگیا کہ مشکل سے مشکل جگہ پر کسی چیز کو کیسے رکھ کر بسایا جاتا ہے اور جب وہ چیز بس جاتی ہے تو اسکا نکلانا کتنا مشکل ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود ماں نے موقع مناسب دیکھ کر بچے کی تربیت کرتے ہوئے بچے کو سمجھایا کہ بیٹے”-ہمارا دین کا معاملہ بھی بھی کچھ اسی طرح کا ہے کہ اگر ہم اس کے ابتدائی باتیں اور بنیادی قوانین بچوں کو بچپن میں صحیح طرز پر پڑھادیں تو وہ پتھر کی طرح بچوں کے ذہن میں نقش ہوجاتا ہےاور وہ کتنا بھی بڑا ہوجائے اسے نکلانا دشوار ہوجاتا ہے-” بالکل اس سنترہ کی طرح کہ جسے نکالنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ شیشے کی بوتل توڑدی جائے–