تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یحییٰ خان کے دور میں ایوانِ صدر کے کچن کے اخراجات یکدم بڑھ گئے کیونکہ یہ وہ دور تھا جب ’’مشروباتِ مغرب‘‘ کو کچن کا باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا تھا۔ ڈائننگ ہال میں ایک خوبصورت بار بنایا گیا تھا جس میں صبح، دوپہر، شام اور رات کے مختلف قسم کے مشروبات کی درجنوں بوتلیں رکھوائی گئیں۔ جن کے بارے میں سختی سے آرڈر تھا کہ یہ ختم نہیں ہونی چاہئیں،
اگر کسی بوتل میں گلاس بھر مشروب ہے تو اسے فوراً ہٹا کر اس کی جگہ بھری ہوئی بوتل رکھ دی جاتی۔ ان مشروبات کو ’’سرو‘‘ کرنے کے لیے پڑھے لکھے سمارٹ باورچی اور خوبصورت بیرے رکھے گئے۔ جو سارا دن پیرس کے نازک گلاسوں میں معزز مہمانوں کی تواضع کرتے رہتے۔ اس دور میں پہلی مرتبہ ایوان صدر کے مینو میں چائنیز، یورپین اور دیسی کھانے شامل کیے گئے جو بغیر کسی پیشگی نوٹس کے فوراً پیش کیے جا سکتے تھے۔ اسی دور میں کچن کے سٹاف میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ کچن کے انتظامات چلانے کے لیے ایک چھوٹی سی باڈی بنائی گئی جو تین افراد پر مشتمل تھی۔ تمام مالی اور انتظامی معاملات کی رکھوالی ان کی ذمہ داری تھی۔ ایک ایک پرچیزنگ کمیٹی تھی جو مارکیٹ سے مختلف اشیاء خریدتی تھی جبکہ بیروں کی وردیوں، چھٹیوں اور ڈیوٹیوں کا حساب رکھنے کے لیے الگ سٹاف رکھا تھا۔
اس مضمون کا محرک بہت دلچسپ تھا، 1996ء میں اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی اس خبر میں انکشاف ہوا۔ ’’وزیراعظم نے وزیراعظم ہاؤس کا چیف شیف معطل کر دیا۔‘‘ تفصیلات میں لکھا تھا۔ ’’وزیراعظم نے اپنے لیے سویٹ ڈش تیار کرائی، یہ ڈش جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہیں ایمرجنسی میں ایک میٹنگ میں جانا پڑ گیا، انہوں نے جاتے جاتے سویٹ ڈش فریج میں رکھوا دی۔
رات گئے وزیراعظم واپس آئیں تو انہوں نے سویٹ ڈش لانے کا حکم دیا، وزیراعظم ہاؤس کا عملہ کچن میں پہنچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا، وزیراعظم کی سویٹ ڈش فریج سے چوری ہو چکی ہے۔ اس ’’چوری‘‘ کی اطلاع جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہوں نے چیف شیف کو معطل کر دیا۔ یہ خبر بہت دلچسپ تھی، میں نے جونہی یہ خبر پڑھی، میں نے سوچا پاکستان کے سابق اور موجودہ حکمرانوں کے دستر خوان ایک دلچسپ موضوع ہے اگر اس پر تحقیق کی جائے اور اس تحقیق کی بنیاد پر ایک طویل فیچر لکھا جائے تو قارئین اس میں دلچسپی لیں گے۔