تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صوبائی حکومتوں کی تاریخ میں عبدالرب نشتر اور ملک امیر محمد خان دو ایسے گورنر گزرے ہیں جن کے دور میں گورنر ہاؤس پنجاب کا کچن عملاً بند رہا۔ نشتر تو سرے سے ایک سرکاری پیسہ بھی اپنے خاندان پر خرچ کرنے کے روادار نہیں تھے چنانچہ سرکاری خدمات کے دوران وہ جو چائے یا کافی پیتے تھے شام کو اس کا بل ادا کر دیتے تھے۔
رہے ملک امیر محمد خان تو انہوں نے ایک حکم کے تحت سرکاری کچن بند کرا دیا اور عملے کو دوسرے شعبہ جات میں بھیج دیا تھا۔ ان کھانا ان کا ذاتی ملازم بناتا تھا جسے وہ کالا باغ سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ ذاتی مہمانوں کے لیے نواب صاحب اپنی جیب سے بازار سے کھانا منگواتے تھے جبکہ گورنر ہاؤس کے چائے پانی کا سارا خرچ وہ خود برداشت کرتے تھے۔ رہا ان کا عملہ تو وہ اپنا کھانا روزانہ گھر سے لاتا تھا۔
اس مضمون کا محرک بہت دلچسپ تھا، 1996ء میں اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی اس خبر میں انکشاف ہوا۔ ’’وزیراعظم نے وزیراعظم ہاؤس کا چیف شیف معطل کر دیا۔‘‘ تفصیلات میں لکھا تھا۔ ’’وزیراعظم نے اپنے لیے سویٹ ڈش تیار کرائی، یہ ڈش جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہیں ایمرجنسی میں ایک میٹنگ میں جانا پڑ گیا، انہوں نے جاتے جاتے سویٹ ڈش فریج میں رکھوا دی۔ رات گئے وزیراعظم واپس آئیں تو انہوں نے سویٹ ڈش لانے کا حکم دیا، وزیراعظم ہاؤس کا عملہ کچن میں پہنچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا، وزیراعظم کی سویٹ ڈش فریج سے چوری ہو چکی ہے۔ اس ’’چوری‘‘ کی اطلاع جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہوں نے چیف شیف کو معطل کر دیا۔ یہ خبر بہت دلچسپ تھی، میں نے جونہی یہ خبر پڑھی، میں نے سوچا پاکستان کے سابق اور موجودہ حکمرانوں کے دستر خوان ایک دلچسپ موضوع ہے اگر اس پر تحقیق کی جائے اور اس تحقیق کی بنیاد پر ایک طویل فیچر لکھا جائے تو قارئین اس میں دلچسپی لیں گے۔