تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سکندر مرزا کے کچن کا سارا انتظام و انصرام بیگم ناہید مرزا کے ہاتھ میں تھا۔ وہ خود ملازمین کے ساتھ بازار جاتی تھیں۔ پوری تسلی کرکے سامان خور و نوش خریدتی تھیں اور بعد ازاں وقفے وقفے سے کچن میں جا کر ایک ایک چیز کا حساب نوٹ بک میں درج کرتی رہتی تھیں۔ اس دور میں گورنر جنرل ہاؤس میں تقریبات بہت ہوتی تھیں لہٰذا کچن کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
ایک حصہ سرکاری تقریبات کے لیے کھانے اور مشروبات کا اہتمام کرتاتھا جس کے تمام تر اخراجات گورنر جنرل ہاؤس کے فنڈز سے ادا کیے جاتے تھے جبکہ دوسرا حصہ سکندر مرزا کا ذاتی کچن کہلا تا تھا جس کے اخراجات گورنر جنرل کی تنخواہ سے منہا ہوتے تھے۔ سکندر مرزا عموماً اپنے ذاتی کچن سے ہی کھانا کھاتے تھے۔ عام طور پر ناشتے میں مینگوجیم، دو سلائس تھوڑا سا مکھن اور کافی کا ایک مگ ہوتا تھا۔ دوپہر کا کھانا بھی وہ اپنے خاندان کے ساتھ ٹیبل پر کھاتے تھے جو تھوڑی سی ترکاری، مچھلی کے ایک آدھ پیس اور کبھی تھوڑے سے گوشت اور چپاتیوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ شام کے کھانے میں اُبلے ہوئے چاول، مرغی کا شوربا اور تھوڑا سا میٹھا پسند کرتے تھے جبکہ ’’مشروبات‘‘ کا سارا کنٹرول براہ راست خاتون اول کے ہاتھ میں تھا جو گورنر جنرل کے تیزی سے بڑھتے ہوئے وزن، دل کے امراض کے غلبے اور سانس کے مسائل کے باعث انہیں بڑی احتیاط سے ’’مشروب‘‘ بنا کر دیتی تھی جس پر سکندر مرزا کو عموماً شکایت رہتی تھی۔ دفتر میں ان کا کافی اور چائے کا سامان الگ تھا جب مہمان آتے تھے تو سرکاری خرچ پر ان کی تواضع کی جاتی تھی۔ جبکہ گورنر جنرل کا کپ ان کے ذاتی خرچ سے تیار کیا جاتا تھا۔
بیگم ناہید مرزا اس کا بھی بڑا حساب رکھتی تھی ہو سکتاہے بیگم صاحبہ کے یہ احکامات اس وقت سکندر مرزا کو بری طرح کھلتے ہوں لیکن آخری عمر میں یہی پابندیاں ان کے لیے بڑی آسودگیاں لے کر آئیں کیونکہ جب انہیں معزول کرکے جلا وطن کر دیا گیا اور وہ لندن کے ایک معمولی سے فلیٹ میں مقیم ہوئے تو بیگم ناہید مرزا کو ایک ہوٹل کے عام سے ملازم کی تنخواہ میں گزارا کرتے ہوئے زیادہ مسائل کا شکار نہ ہونا پڑا۔ یہ معمولی تنخواہ پانے والا ملازم پاکستان کا سابق گورنر جنرل اور صدر سکندر مرزا تھا۔
اس مضمون کا محرک بہت دلچسپ تھا، 1996ء میں اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی اس خبر میں انکشاف ہوا۔ ’’وزیراعظم نے وزیراعظم ہاؤس کا چیف شیف معطل کر دیا۔‘‘ تفصیلات میں لکھا تھا۔ ’’وزیراعظم نے اپنے لیے سویٹ ڈش تیار کرائی، یہ ڈش جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہیں ایمرجنسی میں ایک میٹنگ میں جانا پڑ گیا، انہوں نے جاتے جاتے سویٹ ڈش فریج میں رکھوا دی۔ رات گئے وزیراعظم واپس آئیں تو انہوں نے سویٹ ڈش لانے کا حکم دیا،
وزیراعظم ہاؤس کا عملہ کچن میں پہنچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا، وزیراعظم کی سویٹ ڈش فریج سے چوری ہو چکی ہے۔ اس ’’چوری‘‘ کی اطلاع جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہوں نے چیف شیف کو معطل کر دیا۔ یہ خبر بہت دلچسپ تھی، میں نے جونہی یہ خبر پڑھی، میں نے سوچا پاکستان کے سابق اور موجودہ حکمرانوں کے دستر خوان ایک دلچسپ موضوع ہے اگر اس پر تحقیق کی جائے اور اس تحقیق کی بنیاد پر ایک طویل فیچر لکھا جائے تو قارئین اس میں دلچسپی لیں گے۔