عروۃ بن محمد سعدی نے حیان بن نافع بصری کو تحفے تحائف دے کر سلیمان بن عبدالملک کی طرف بھیجا۔ وہ اس وقت ’’دابق‘‘ میں تھا۔ اس نے عطیات قبول کر لے۔ اس کے انتقال کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو خلیفہ بنایا گیا تو یہ حضرت عمرؒ کے لیے بھی اسی طرح تحائف لے کر حاضر ہوئے جس طرح سلیمان کے لیے تحائف لائے تھے۔ اس وقت ہمارے پاس تقریباً پانچ سو یا چھ سو رطل عنبر اور بہت زیادہ مشک تھی۔
جس وجہ سے ہر چیز مشک و عنبر کی خوشبو سے مہک رہی تھی۔ حضرت عمرؒ نے اپنی آستین سے ناک بند کر لی۔ پھر اپنے غلام سے کہا کہ اس کو یہاں اٹھا دو۔ لوگوں نے عرض کیا: امیرالمومنین اس کو سونگھ لینے میں کیا حرج ہے؟ آپ نے فرمایا ’’مشک و عنبر سے خوشبو سونگھ کر ہی نفع حاصل کیا جاتا ہے۔‘‘
وہ غم ہے کہ اب غم کا نشان کچھ بھی نہیں ہے
عبدالسلام مولی مسلمہ بن عبدالملک بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمرؒ بیٹھے بیٹھے رونے لگے، (ان کو دیکھ کر) آپ کی زوجہ محترمہ حضرت فاطمہؒ بھی رونے لگیں، پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا گھر رونے لگا، ان میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ سب کیوں رو رہے ہیں۔ جب ان پر سے یہ سختی کی کیفیت ختم ہوئی تو حضرت فاطمہؒ نے اپنے سرتاج سے عرض کیا ’’میرا باپ آپ پر قربان جائے اے امیرالمومنین! آپ کیوں روئے ہیں۔‘‘ حضرت عمرؒ نے دلسوز لہجے میں جواب دیا ’’اے فاطمہ! مجھے لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا یاد آ گیا تھا کہ جب ایک جماعت جنت میں جائے گی اور ایک جماعت جہنم کا ایندھن بن جائے گی۔‘‘ حضرت عمرؒ نے اتنا کہا، آپ کے سینے سے ایک درد ناک چیخ نکلی اور بے ہوش ہو کر گر پڑے۔
حضرت عمرؒ کی عظمت کا راز
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے انتقال کے بعد فقہا اور علماء آپ کی اہلیہ حضرت فاطمہؒ کے پاس تعزیت کے لیے آئے تو انہوں نے آپؒ سے حضرت عمرؒ کی عبادت کے بارے میں پوچھا تو آپؒ کی اہلیہ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! وہ آپ حضرات اور دیگر مسلمانوں سے زیادہ عبادت گزار، نمازیں پڑھنے والے اور روزے رکھنے والے نہ تھے۔۔۔
البتہ ایک بات ضرور ہے وہ یہ کہ اللہ کی قسم! میں نے حضرت عمرؒ سے بڑھ کر کسی کو اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا، وہ اپنے بستر پر ہوتے اور اللہ کو یاد کرتے تووہ اللہ کے خوف کی وجہ سے ایسے تڑپتے جیسے ایک پرندہ پھڑپھڑاتا اور تڑپتا ہے (جو پانی میں گر گیا ہو) آپ کی یہی کیفیت رہتی حتیٰ کہ ہم یقین کر لیتے کہ جب لوگ صبح کریں گے تو وہ اپنے خلیفہ کو زندہ نہیں دیکھ سکیں گے۔‘‘ ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مرتبے والا وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘