اسی طرح آپ کے ایک صاحبزادے نے انگوٹھی کا ایک نگینہ ایک ہزار درہم میں خریدا۔ آپ کو پتہ چلا تو اسے لکھا: ’’تمہیں اللہ کی قسم! اس انگوٹھی کو جسے تم نے ایک ہزار درہم میں خریدا ہے، فوراً فروخت کر دو، اور اس کی قیمت اللہ کے راستے میں دے دو۔ اور ایک درہم کی دوسری انگوٹھی خرید لو جس پر یہ کندہ ہو: ’’اللہ اس پر رحم فرمائے جواپنا مرتبہ پہچانے۔‘‘
ہدیہ یا رشوت
عموماً ایسا ہوتا تھا کہ لوگ خلفاء اور امراء کو ہدایا اور تحائف بھیجا کرتے تھے اور اس کے بدلہ میں پھر ان سے جائز اور ناجائز کام لیتے تھے اس لیے بعض ہدیے رشوت ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ کسی شخص نے آپ کو سیب اور دوسرے کئی میوہ جات ہدیہ میں بھیجے۔ آپ نے واپس کر دیے۔ بھیجنے والے نے کہا کہ رسول اللہؐ تو ہدیہ قبول کر لیا کرتے تھے۔ آپ نے جواب دیا۔ ’’ہدیہ تو آپؐ کے لیے ہدیہ ہوتا تھا لیکن آج وہ ہدیہ ہمارے لیے رشوت ہے۔‘‘
جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سو نمونے
عفان بن راشد بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سلیمان کے ساتھ ’’عرفہ‘‘ میں کھڑے تھے کہ اچانک زور دار بجلی کڑکی۔ سلیمان نے خوف کے مارے اپنا سینہ سواری کے اگلے حصے پر رکھ دیا اور خوف و اندیشہ سے تھرتھر کانپنے لگا۔ حضرت عمرؒ نے اس کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا ’’اے امیرالمومنین! یہ بجلی کی کڑک تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ آئی ہے، اگر یہی بجلی اس کے غضب و ناراضگی کے ساتھ آ جائے تو اس وقت کیا حالت ہو گی۔‘‘یعنی جب رحمت سے آنے والی کڑک سے آپ لرز اٹھے ہیں تو پھر غضب سے نازل شدہ بجلی اور گرفت سے آپ کی کیاحالت ہو گی اس لیے اس کے غضب سے ڈرتے ہوئے اس کی اطاعت کرنی چاہیے۔