بیت المال کی طرف سے فقراء اور مساکین کے لیے جو مہمان خانہ تھا۔ اس کے باورچی خانہ سے اپنے لیے پانی بھی گرم نہ کراتے تھے۔ ایک مرتبہ غفلت میں آپ کا ملازم ایک ماہ تک اس باورچی خانہ سے آپ کے وضو کے لیے پانی گرم کرتا رہا۔ جب آپ کو معلوم ہوا تو جتنی لکڑی ملازم نے اس مہینے میں استعمال کی تھی اتنی لکڑی خرید کر اس باورچی خانہ میں داخل کرا دی۔
ایک دفعہ ایک غلام کو گوشت کا ٹکڑا بھوننے کا حکم دیا وہ اسی مطبخ سے بھون کر لے آیا آپ کو پتہ چلا تو آپ نے اسے ہاتھ نہ لگایا اور غلام سے فرمایا، تم ہی کھا لو یہ میری قسمت کا نہ تھا۔
عشق کی مشکل نے ہر مشکل کو آساں کر دیا
ایک موقع پر آپ کے خیر خواہوں نے آپ سے عرض کیا کہ گزشتہ خلفاء کی طرح آپ بھی دیکھ بھال کر کھانا کھایا کریں اور دشمنوں اور مخالفین کے حملوں کی حفاظت کے لیے نماز میں پہرہ کا اہتمام کیا کریں۔ آپ نے ان حضرات کا یہ مشورہ سن کر فرمایا ’’ان لوگوں نے اپنی اتنی حفاظت کی پھر بھی ان کا کیا ہوا؟ کیا وہ مرے نہیں؟‘‘۔ جب لوگوں نے زیادہ اصرار کیا تو فرمایا ’’اے اللہ! اگر میں تیرے علم میں روز قیامت کے علاوہ اور کسی دن سے ڈروں تو میرے خوف کو اطمینان نہ دلا۔‘‘
حکیمانہ اندازِ تربیت
حضرت عمرؒ نے جیسا سلوک اپنی اہلیہ سے کیا ویسا ہی اپنی اولاد سے بھی کیا۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ کی ایک بچی نے آپ کو ایک موتی بھیجا اور درخواست کی کہ میرے لیے اس جیسا ایک موتی بھیج دیں تاکہ میں اپنے دونوں کانوں میں ایک جیسے موتی پہن سکوں۔ آپ نے اس کے پاس دو انگارے بھیج دیے اور فرمایا اگر تم یہ دونوں انگارے اپنے کانوں میں پہن سکتی ہو تو تمہارے لیے اس موتی جیسا دوسرا موتی بھیج دوں گا۔