حضرت عمرؒ رات بھر جاگ کر موت پر غور کیا کرتے تھے کہ یہ کس طرح تمام لذتوں کو ختم کر دیتی ہے اور قبر کی ہولناکیوں کو یاد کرکے بے ہوش ہو جاتے تھے۔ ایک مرتبہ اپنے ہم جلیس سے فرمایا کہ میں تمام رات غور و فکر میں جاگتا رہا۔ اس نے پوچھا کس شے کے بارے میں؟ فرمایا ’’قبر اور اہل قبر کے متعلق، اگر تم مردے کو تین روز کے بعد قبر میں دیکھو تو انس و محبت کے باوجود اس کے پاس جاتے ہوئے خوف زدہ ہو جاؤ گے،
پیپ بہہ رہی ہو گی اور اس میں کیڑے تیر رہے ہوں گے، بدبو پھیلی ہوگی، کفن بوسیدہ ہو چکا ہو گا۔ یہ کہہ کر روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ ان کی اہلیہ ان پر پانی چھڑک کر انہیں ہوش میں لائیں۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جس نے موت کو اکثر یاد کیا اور تھوڑی دنیا پر راضی ہو گیا وہ کامیاب ہے۔
دل کو مرے شعور محبت بھی جب نہ تھا
روایات میں ہے کہ آپ کو بچپن ہی سے موت کا خوف دامن گیر رہتا تھا۔ کم سنی میں بھی جب آپ کوموت کا خیال آتا تو زار و قطار رو پڑتے۔ ایک روز آپ کی والدہ کو پتہ چلا کہ آپ رو رہے ہیں۔ اس وقت آپ قرآن حکیم کو سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ آپ کی والدہ نے رونے کا سبب معلوم کرایا تو پتہ چلا کہ آپ موت یاد آنے سے رو رہے ہیں۔ یہ سن کر والدہ بھی رونے لگیں کیونکہ ان کو بھی موت یاد آ گئی اور اس لیے بھی آپ کے بیٹے کو اس بچپنے ہی میں یہ خیال آ رہا ہے کہ موت سر پر کھڑی ہے۔