جب کبھی اچھی شے کھانے کی خواہش ہوتی تو وہ خواہش دل میں گھٹ کر رہ جاتی کیونکہ اس کو پورا کرنے کی قدرت نہ تھی۔ ایک مرتبہ انگور کھانے کو جی چاہا۔ اپنی اہلیہ سے پوچھا: ’’تمہارے پاس ایک درہم ہے؟ میرا انگور کھانے کو جی چاہ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے جل بھن کر جواب دیا ’’آپ اچھے امیرالمومنین ہیں کہ جیب میں ایک درہم بھی نہیں۔‘‘ جواب میں فرمایا ’’یہ جہنم کی ہتھکڑیوں سے میرے لیے زیادہ آسان ہے۔‘‘
یعنی جہنم کی ہتھکڑیاں پہننے سے یہ بات زیادہ آسان ہے کہ جیب میں ایک درہم بھی نہ ہو۔
اہلِ حق کی قدردانی
مدین والوں میں آپ کے بہترین مصاحب عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ تھے۔ یہ حضرت عمرؒ کی زندگی ہی میں فوت ہو گئے تھے لیکن پھر بھی ان کی عظیم محبت آپ کے دل میں جوش مارتی رہتی تھی۔ اکثر فرمایا کرتے تھے ’’بخدا! میں عبیداللہ کی ایک رات سرکاری خزانہ سے ایک ہزار دینار میں خرید لوں گا‘‘ پوچھا گیا ’’امیرالمومنین! آپ یہ کیا فرما رہے ہیں جب کہ آپ سرکاری خزانہ کے باے میں نہایت محتاط ہیں‘‘ فرمایا: ’’تمہاری عقلیں کہاں گئیں‘‘ بخدا! میں ان کی رائے خیر خواہی اور ہدایت سے بیت المال میں کروڑوں جمع کر دوں گا‘‘ ایک مرتبہ فرمایا: ’’اگر مجھے عبیداللہ کی ایک مجلس نصیب ہو جائے تو وہ مجھے دنیا سے اور جو کچھ اس دنیا میں ہے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘