اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلند علمی رتبہ عطا فرمایا تھا اس بلند رتبہ کی وجہ سے بڑے بڑے علمائے تفسیر اس بارے میں آپ کی طرف ہر مشکل سوال کے جواب میں رجوع فرماتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ حجاز و شام کے بعض علماء نے آپ کے صاحبزادے عبدالملک سے کہا کہ آپ کے والد ماجد سے قرآن حکیم کی اس آیت ’’وہ دور سے کیونکہ پا سکتے تھے‘‘۔ کے بارے میں پوچھو کہ اس سے کیا مراد ہے؟
انہوں نے آپؒ سے اس بارے میں دریافت کیا۔ آپؒ نے فرمایا، اس سے مراد وہ توبہ ہے جس کی خواہش اس وقت کی جائے جس وقت انسان اس پر قادر نہ ہو۔
جس قلب نے دل پھونک دیے لاکھوں
حضرت عمرؒ جب قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تو لوگوں پر گریہ طاری ہو جاتا اور پھر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لوگوں کے ساتھ مسجد کے در و دیوار بھی مصروف گریہ ہیں۔ ایک روز آپ نے عید کا خطبہ دیا جس میں کمال سوز و گداز تھا۔ آپ کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تمام لوگ مصروف گریہ تھے۔ ابھی یہ خطبہ مکمل نہ ہوا تھا کہ آپ نیچے اتر آئے۔ رجاء نے کہا ’’امیرالمومنین! آج آپ نے ایسا خطبہ ارشاد فرمایا جس نے لوگوں کو رلا دیا۔ پھر سخت ضرورت کے وقت آپ خاموش ہو کر منبر سے نیچے اتر آئے‘‘۔ فرمایا ’’رجاء! مجھے فخر و مباہات پسند نہیں‘‘۔
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
حضرت عمرؒ کو حسنِ ادا میں بڑا کمال حاصل تھا۔ جو شخص آپ کی باتیں سنتا وہ ٹھہر جاتا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ عدی بن فضل نے آپ کا خطبہ سنا۔ یہ شخص فصاحت اور بلاغت کلام کا بڑا مشتاق تھا۔عدی مسافر تھا لیکن اس نے آپ کے جمعے کا خطبہ سننے کے لیے ٹھہر جانا پسند کیا اور برابر ایک ماہ تک ٹھہرا رہا۔ وہ صرف آپ کے جمعہ کا خطبہ سننے کے انتظار میں رہتا تھا اور ٹھہرا بھی اسی غرض سے تھا۔