اموی امراء نے حضرت عمرؒ کو راستے سے ہٹانے کی ٹھان لی تھی اور انہوں نے اس کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ آپ کے ایک غلام کو ایک ہزار دینار دے کر آپ کو زہر دلوا دیا۔ آپ کو اس بات کا علم ہو گیا لیکن آپ نے غلام پر کوئی سختی نہ کی صرف اس سے ایک ہزار دینار واپس لے کر ان کو بیت المال میں داخل کر دیا اور غلام کو آزاد کر دیا۔ طبیب کو بلایا گیا۔ اس نے بھی زہر کی تشخیص دی لیکن آپ نے علاج کروانے سے انکار کر دیا۔
شاید اس کی یہ وجہ ہو کہ غلام کا راز فاش نہ ہو اور کوئی اس پر سختی نہ کرے اور فرمایا: اگرمجھے یہ بھی یقین ہو جاتا کہ میرے کان کی لو کے پاس میری شفا ہے تو بھی میں اس کے لیے ہاتھ نہ بڑھاتا۔
خلافت کی قدر و منزلت
عبدالملک بن عمر بن عبدالعزیزؒ نے بچپن ہی میں اپنے والد کی بنسبت اپنے نفس پر زیادہ قابو پا لیا تھا حالانکہ حضرت عمرؒ خلیفہ تھے اور کہولت کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ ایک روز حضرت عمرؒ کو غصہ آیا، پھر جب آپ کا غصہ ختم ہوا تو عبدالملک نے آپ سے کہا: ’’امیرالمومنین! کیا اللہ کی رحمتوں کی اور اس کی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بلند مقام عطا فرمایا ہے اور آپ کو اپنے بندوں کا امیر بنایا ہے یہی قدر و منزلت ہے؟ کہ آپ کو اتنا شدید غصہ آئے جو اس وقت میرے مشاہدے میں آیاہے۔‘‘ سیدنا عمرؒ نے فرمایا: ’’بیٹا تم نے کیا کہا؟ ذرا پھر دہراؤ۔‘‘ چنانچہ عبدالملکؒ نے اپنی بات دہرائی۔ حضرت عمرؒ نے فرمایا: ’’عبدالملک! کیا تم کو غصہ نہیں آتا؟ جواب دیا کہ میرا پیٹ میرے کس کام آئے گا اگر میں اس میں غصہ نہ لوٹاؤں، حتیٰ کہ ذرا سا غصہ بھی ظاہر نہ ہونے دوں۔